اس سورۂ مبارکہ کا مفہوم بیان کرنے سے قبل میں چاہتاہوں کہ ایک بنیادی بات آپ کو بتا دوں اور وہ یہ کہ فہم قرآن کے بہت سے مراتب ہیں، جن میں سے اوّلین یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی کسی سورت یا آیت میں جو اصل سبق (LESSON) پنہاں ہو اسے اخذ کر لیا جائے اور اس سے بنیادی رہنمائی (BASIC GUIDANCE) حاصل کر لی جائے. اسے خود قرآن مجیدنے تذّکر بالقرآن کا نام دیا ہے اور ا س اعتبار سے قرآن مجید نہایت آسان کتاب ہے. اس کے برعکس قرآن مجید پر غور و فکر کی بلند ترین سطح وہ ہے جسے قرآن مجید نے تدبر قرآن قرار دیا ہے، یعنی یہ کہ ہر ہر لفظ کی گہرائی میں اُتر کر اس کے معانی پر غور کیا جائے اور قرآن کے فلسفہ و حکمت کو اخذ کیا جائے. اس پہلو سے قرآن حکیم مشکل ترین کتاب ہے اور اس کے معانی کی تہ تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے.

آج کی اس مجلس میں میں سورۃ العصر کا مفہوم مقدم الذکر اعتبار سے قدرے تفصیل سے بیان کروں گا، تاکہ اس سورۂ مبارکہ کی بنیادی تعلیم اور اس کی اصل رہنمائی پوری طرح واضح ہو جائے، اور پھر کچھ مختصر اشارات مؤخر الذکر طریق پر بھی کروں گا، تاکہ سوچنے سمجھنے والوں کو مزید غو رو فکر کے لیے رہنمائی حاصل ہو جائے.

………(۲)………

ترجمہ
اس سورۂ مبارکہ کا سادہ ترین الفاظ میں ترجمہ یہ ہے:

’’زمانے کی قسم ہے کہ تمام انسان خسارے میں ہیں. سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کی.‘‘


عبارت کا تجزیہ (ANALYSIS)

ذرا غور کیجئے تو صاف نظر آ جائے گا کہ اگرچہ اس سورۂ مبارکہ میں آیات تین ہیں، لیکن ان تینوں سے مکمل جملہ ایک ہی بنتا ہے. پہلی آیت ایک قسم پر مشتمل ہے. دوسری میں ایک قاعدۂ کلیہ(GENERAL RULE) بیان ہوا ہے. اور تیسری میں اس قاعدۂ کلیہ سے ایک استثناء (EXCEPTION) کا بیان ہے، اور تینوں آیتیں مل کر ایک سادہ سی بات (SIMPLESTATMENT) کی صورت اختیار کر لیتی ہیں.

اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اِ س سادہ سے فقرے کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے ذرا سے غور و فکر اور سوچ بچار سے چار نتائج اخذ کریں، جو گویا کہ اس سورۂ مبارکہ کا اصل حاصل اور بنیادی سبق(LESSON) ہیں.