سب سے نمایاں اور سب سے اہم حقیقت جو بالکل ظاہر و باہر ہے اور گویا اس جامِ حقیقت نما سے خود بخود چھلکی پڑ رہی ہے یہ ہے کہ اس سورت میں انسان کی اصل کامیابی اور ناکامی اور اس کے حقیقی نفع و نقصان کا معیار پیش کیا گیا ہے.

اِس حقیقت کو آپ سب اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں کہ ہر انسان اپنے سامنے کامیابی اور ناکامی اور نفع و نقصان کا کوئی نہ کوئی معیار ضرور رکھتا ہے، اور اس کی ساری عملی جدوجہد اور دنیا کی زندگی میں اس کی تمام محنت و مشقت کا رُخ اِس معیار ہی سے متعین ہوتا ہے. جو لوگ عقلی اعتبار سے بلوغ اور پختگی کو پہنچ چکے ہیں ان میں سے تو شاذ ہی کوئی ہو گا جس کا کوئی نہ کوئی متعین نصیب العین (GOAL) اور مطمح نظر (IDEAL) نہ ہو، عموماً چھوٹے بچوں خصوصاً ان میں سے جو زیادہ ذہین ہوتے ہیں ان کے سامنے بھی کوئی نہ کوئی معیارِ مطلوب ضرور ہوتا ہے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنی محنت اور جدوجہد کو مرتکز (CONCENTRATE) کر دیتے ہیں.

ہم اگر ذرا دِقّتِ نظر سے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں، بلکہ خود اپنے دل و دماغ میں جھانک کر دیکھیں تو صاف نظر آجائے گا کہ اس دَور میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار یا تو روپیہ پیسہ، مال و دولت اور زمین و جائیداد ہے یا حیثیت، وجاہت، اقتدار اور دنیوی دبدبہ و جاہ و جلال اور عزت و شہرت اور نام و نمود، چنانچہ ا لاّماشاء اللہ سب لوگ ان ہی چیزوں کی طلب میں لگے ہوئے ہیں اور ان ہی کے لیے انہوں نے اپنی ساری سعی و جہد اور محنت اور مشقت کو صَرف کر دیا ہے. اکثر طلبہ کے ذہنوں میں بھی یا تو کسی ایسے فن کی تحصیل ہے جس سے خوب دولت کمائی جا سکے یا پھر کسی حیثیت و وجاہت والی پوزیشن کا حصول ہے، اور ان چیزوں کو حاصل کر لینا ہی ان کے نزدیک کامیابی ہے اور حاصل نہ کرسکنا ناکامی.

سورۃ العصر سے جو عظیم حقیقت سامنے آتی ہے وہ اِس کے بالکل برعکس ہے. یعنی یہ کہ انسان کی کامیابی کا معیار نہ روپیہ پیسہ ہے، نہ حیثیت ووجاہت، نہ جاہ و جلال ہے، نہ نام و نمود، بلکہ اس کی پہلی شرط ہے ایمان، دوسری شرط ہے عمل صالح، تیسری شرط ہے تواصی بالحق اور چوتھی شرط ہے تواصی بالصبر. گویا ہر وہ انسان جس میں یہ چار چیزیں موجود نہ ہوں ایک ناکام، نامراد اور خائب و خاسر انسان ہے، چاہے وہ لکھ پتی ہی نہیں کروڑ پتی ہو بلکہ قارون کی سی دولت اسے حاصل ہو جائے اور چاہے کتنا ہی صاحب حیثیت ووجاہت کیوں نہ ہو اور فرعون و نمرود کی سی بادشاہی ہی کیوں نہ حاصل کر لے.

اور اس کے برعکس (CONVERSELY) ہر وہ شخص کامیاب اور بامراد اور فائزالمرام ہے جس میں یہ چاروں چیزیں موجود ہوں، چاہے اس کے پاس مال و دولت دنیوی سرے سے موجود نہ ہو، بلکہ اسے فاقوں سے سابقہ ہو، اور چاہے وہ جائیداد اور متاع و اسباب دنیوی سے کتنا ہی تہی دست کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ اس کے پاس سر چھپانے تک کو جگہ نہ ہو، اور چاہے وہ دنیا میں کتنا ہی غیر معروف اور گمنام کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ کوئی اسے پوچھتاتک نہ ہو.
غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ اس حقیقت کو سرسری طور پر مان لینا جس قدر آسان ہے، اس پر دل کا ٹھک جانا اسی قدر مشکل ہے. یہ دنیا عالم اسباب ہے اور ہم اس کے ظواہر سے لازماً متأثر ہوتے ہیں. اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آرام وآسائش اور عزت و شہرت روپے پیسے اور اسباب و وسائل ہی سے وابستہ ہے تو ہم بے اختیار ان چیزوں کے حصول کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز اور کیا حلال ہے اور کیا حرام. گویا اس دنیا کی زندگی میں ہمارے رویے اور طرزِ عمل کی درستی کا تمام تر انحصار اسی بات پر ہے کہ ہمارا کامیابی اور ناکامی اور نفع و نقصان کا معیار بدل جائے. چنانچہ یہی اس سورۂ مبارکہ کا اصل سبق (LESSON) ہے.

آپ غور کریں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اگر وہ سادہ سی حقیقت جو اس عظیم سورت میں بیان ہوئی ہے ہمارے ذہن نشین ہو جائے ،اور وہ سادہ سا جملہ جس پر یہ سورت مشتمل ہے ہماری لوح ِ قلب پر کندہ ہو جائے، تو ہمارے نقطۂ نظر میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا، ہماری اقدار (VALUES) کتنی بدل جائیں گی اور عملی زندگی میں ہمارا رویہ (ATTITUDE) کس قدر تبدیل ہو جائے گا. جو چیز پہلے اہم ترین نظر آتی تھی اب انتہائی حقیر نظر آئے گی، اور جو پہلے بالکل غیر وقیع نظر آتی تھی اب انتہائی اہم محسوس ہوگی.

واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زندگی میں جو عظیم انقلاب برپا ہوا اِس کی تہ میں نقطۂ نظر کی یہی تبدیلی کار فرما تھی، اور نقطۂ نظر کی اِسی تبدیلی کا کرشمہ تھا کہ انہیں خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی کے مقابلے میں دنیا و مافیہا بالکل حقیر نظر آتے تھے، حتیٰ کہ انہیں زندگی کی نسبت موت زیادہ عزیز ہو گئی تھی.

الغرض، اس سورۂ مبارکہ کا اصل سبق یہی ہے، اور ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اس کا خوب مراقبہ کرے اور اسے اچھی طرح ذہن نشین بھی کرے اور جاگزین قلب بھی.