نجات کی کم از کم شرائط اور اس کے ناگزیر لوازم


دوسرا بنیادی نتیجہ جو اس جملے کی ترکیب 
(CONSTRUCTION) سے خود بخود حاصل ہوتا ہے یہ ہے کہ اس سورت میں نجات کی کم از کم شرائط بیان ہو رہی ہیں اور اس کے ناگزیر لوازم کا ذکر ہے، نہ کہ کامیابی کی بلند ترین منازل یا فوزو فلاح کے اعلیٰ مراتب کا. گویا یہ نجات (SALVATION) کے کم از کم (MINIMUM) تقاضوں کا بیان ہے اور ان سے کم پر نجات کی تواقع نہیں کی جاسکتی. سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کامیابی کی فرسٹ یا سیکنڈ ڈویژن کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ صرف آخر درجہ میں پاس ہونے کی شرح (MERE PASS PERCENTAGE) کا بیان ہو رہا ہے.

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا نتیجہ بھی عملی اعتبار سے نہایت اہم ہے اور اسی کو فراموش کر دینے کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں شدید اخلاقی و عملی انحطاط پیدا ہوا. اس لیے کہ فطری طو ر انسان میں محنت و مشقت اور ایثار و قربانی کا مادہ کامیابی کے کم از کم معیار کی نسبت اور تناسب ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو خصوصاً دینی معاملات میں اعلیٰ مراتب اور بلند مقامات کے لیے کوشاں ہوں. اس کے برعکس عظیم اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح ہمت کر کے نجات کے کم از کم لوازم کو پورا کرنے کی سعی کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ میں نجات کے کم از کم تقاضوں کو نہایت سادہ الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے، تاکہ لوگ اپنی اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق ان کو پورا کرنے پر کمر بستہ ہو سکیں.