تیسرا نتیجہ جو اسی دوسرے نتیجہ کی فر ع (COROLLARY) ہے یہ ہے کہ نجات کے لیے ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق، تواصی بالصبر چاروں لازم ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا. اس لیے کہ یہ کلام الٰہی ہے، اس میں کوئی حرف بھی ضرورت سے زائد اور محض ردیف و قافیہ کی ضرورت کے تحت یا غیر ضروری مبالغہ آمیزی کے لیے نہیں ہے. اور جب یہاں خسارے اور ناکامی سے نجات کی شرائط کے ضمن میں چار چیزوں کا بیان ہوا ہے تو یقینا وہ چاروں ہی چیزیں لازمی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو بھی ساقط کر دیا جائے تو انسان کی نجات کی ذمہ داری قرآن حکیم پر نہیں رہے گی. بالکل ایسے ہی جیسے اگر کوئی ماہر معالج کسی مریض کو چار ادویات پر مشتمل نسخہ لکھ کر دے اور مریض اپنی مرضی سے اس میں سے کسی ایک دوا کو کم کر دے تو اب اس نسخہ کی ذمہ داری اس معالج پر نہیں ہو گی، بلکہ خود اُس مریض پر ہو گی.

اس حقیقت پر زور دینا اِس لیے ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ذہنوں میں یہ غلط بات بیٹھ گئی ہے کہ ہر کلمہ گو کی نجات لازمی ہے، گویا نجات کے لیے صرف ایمان اور اس کا بھی محض زبانی اقرار کافی ہے. اس کے بعد اگر کوئی کچھ بھی عمل کر لے تو یہ اضافی نیکی ہے اور اس سے اس کے درجات بلند ہو جائیں گے، ورنہ محض نجات کے لیے عمل ضروری نہیں ہے. بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی آپ کو ملے گی جو ایمان کے ساتھ تھوڑے بہت عمل کو بھی کسی درجے میں نجات کے لیے ضروری سمجھتے ہوں.

یہ تھوڑی تعداد بھی تواصی بالحق اور حق کی دعوت و اشاعت کو تو ہر گز ہر شخص کے لیے لازم نہیں سمجھتی او ریہ خیال بالکل یقینی سا گردانا جاتا ہے کہ حق کی تبلیغ و تلقین تو بس ایک مخصوص گروہ ہی کا کام ہے، باقی لوگوں کے لیے نہ صرف یہ کہ دعوت و تبلیغ لازمی نہیں ہے بلکہ مناسب بھی نہیں. پھر اس خاص گروہ نے بھی بالعموم کامل اور مکمل حق کی تبلیغ سے ابتلاء و آزمائش کو دعوت دینے کی عزیمت کی راہ کو چھوڑ کر زیادہ تر رخصتوں پر اپنے عمل کا دارومدار رکھ دیا ہے، اور اس طرح پوری اُمت پر بے عملی، جمود، تعطل اور عمل سے گریز اور فرار کی ذہنیت کا تسلط ہو گیا ہے. اور اس صورت حال میں کوئی تبدیلی اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ نجات کے لیے عمل صالح بھی ناگزیر ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حق کا اقرار و اعلان اور اس کی دعوت و شہادت بھی لازمی ہے، اور اس راہ میں جو مصیبت یا تکلیف آئے اس پر ثابت قدم رہنا بھی. چنانچہ یہی وہ عظیم حقیقت ہے جو اس انتہائی مختصر مگر نہایت جامع سورت میں بیان ہوئی ہے.

ان چاروں چیزوں کے مابین جو عقلی اور منطقی ربط ہے اسے بھی سمجھ لینا ضروری ہے. کسی انسان کا صاحب سیرت و کردار قرار پانا اس پر منحصر ہے کہ وہ ہر معاملہ میں اوّلاً یہ دیکھے کہ صحیح بات کیا ہے. پھر جس بات کی صحت پر اس کے دل و دماغ گواہی دے دیں اس کو عملاً اختیار کرے اور نہ صرف خود اختیار کرے بلکہ اس کا اقرار و اعتراف اور اعلان عام بھی کرے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کو ماننے اور قبول کرنے کی دعوت دے، اور پھر اگر اس راہ میں کوئی دِقت پیش آئے یا ایثار و قربانی اور سرفروشی و جانفشانی کا مرحلہ آ جائے تو پامردی و استقلال کا ثبوت دے اور پیٹھ دکھا کر بھاگ نہ جائے. کسی شریف اور صاحب کردار انسان کے لیے ان مراحل میں سے کسی میں بھی کوئی دوسری روش اختیار کرنا ممکن نہیں. بصورت دیگر وہ ایک بودا، تھڑد لا اور کمزور سیرت و کردار کا حامل انسان قرار پائے گا، نہ کہ ایک شریف اور صاحب کردار انسان. چنانچہ یہی عقلی ربط اور منطقی ترتیب (LOGICAL SEQUENCE) ہے ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر میں… اور کسی بھی صاحب کردار انسان کے لیے ان میں سے کسی ایک سے بھی کنی کترانا ممکن نہیں.