اسی طرح دوسری آیت کا سادہ ترجمہ بھی ہم نے یہ کیا ہے کہ پوری نوعِ انسانی گھاٹے اور خسارے میں ہے، لیکن اس سے بھی اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا، اس لیے کہ خسران قرآنی اصطلاح میں صرف دو چار ہزار یا دو چار لاکھ کے گھاٹے کو نہیں، بلکہ کامل تباہی اور بربادی کو کہتے ہیں. چنانچہ کامیابی اور بامرادی کے لیے تو قرآنِ حکیم میں متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے فوز وفلاح اوررشدوسعادت، لیکن ان سب کی کامل ضد (ANTONYM) کی حیثیت سے ایک ہی جامع لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے خسران. گویا دوسری آیت کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ ’’پوری نوعِ انسانی تباہی اور ہلاکت و بربادی سے دو چار ہونے والی ہے.‘‘

اس عظیم آیت میں جو اہم حقیقت بیان ہوئی ہے اور نوعِ انسانی کے جس المیے (HUMAN TRAGEDY) کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے اس کا صحیح مفہوم و ادراک دو مرتبوں (STAGES) میں ہو سکتا ہے. ایک یہ کہ ہر انسان اِس دنیا کی زندگی میں شدید قسم کی محنت و مشقت سے دو چار ہے. اکثر لوگوں کو اپنی اور اپنے لواحقین (DEPENDENTS) کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کے لیے صبح سے شام تک کمر توڑ دینے والی مشقت کرنی پڑتی ہے اور پھر بھی بنیادی ضرورتیں (BASIC NECESSITIES) تک پوری نہیں ہوتیں. چنانچہ انسانیِ آزادی کی ایک عظیم اکثریت غذا، لباس، مکان، تعلیم اور علاج معالجہ جیسی بنیادی چیزوں تک سے مناسب حد تک بہرہ اندوز نہیں ہے. جو لوگ نسبتاً خوشحال ہیں، انہیں بھی بہرحال محنت اور مشقت کیے بغیر کوئی چارہ نہیں.

اس حد تک تو پھر بھی انسان زیادہ سے زیادہ ایک باربرداری کے جانور سے مشابہہ ہے، لیکن اس کا مزید المیہ یہ ہے کہ اس میں احساسات بھی بے پناہ موجود ہیں، لہذا اسے ان مشقتوں پر مستزاد بے شمار قسم کے صدمات سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے. کبھی اولاد کی محبت اُسے رُلاتی ہے توکبھی اعزہ واقارب کے دُکھ اُسے بانٹنے پڑتے ہیں، کبھی یہ کسی عزیز کی بیماری کا غم سہہ رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی محب یا محبوب کی موت کا صدمہ برداشت کرتا ہے. الغرض اس کے لیے صرف محنت و مشقت ہی ضروری نہیں بلکہ رنج و الم بھی لازمی ہیں. بقول غالب ؎

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

آپ کو یقینا معلوم ہوگاکہ حیات انسانی میں اسی درد اور دُکھ اور رنج و الم کے مشاہدے سے مہاتما گوتم بدھ اس درجہ دل برداشتہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے عین جوانی کے عالم میں نوجوان بیوی اور معصوم بیٹے کو سوتے چھوڑ کر جنگل میں جادھونی رمائی تھی.

خوشحال اور دولت مند لوگوں کے بارے میں عوام کو اکثر یہ مغالطہ لاحق ہو جاتا ہے کہ شاید انہیں کوئی دکھ نہیں. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس نوع کے نفسیاتی کرب (PSYCHIC AGONY) سے ان کی اکثریت دوچار ہوتی ہے اس کا اندازہ بھی عام آدمی نہیں کر سکتا. چنانچہ انہیں بے شمار قسم کے تضادات ذہنی (CONFLICTS) اور مایوسیوں (FRUSTRATIONS) کا سامنا رہتا ہے اور اکثر و بیشتر امراضِ دماغی (MENTAL DISEASES & PSYCHIC DISORDERS ) کا شکار اسی طبقے کے لوگ ہوتے ہیں.

یہ دراصل انسانی المیے کا پہلا درجہ ہے اور اِسی کا ذکر قرآن حکیم کے تیسویں پارے میں سورۃ البلد کی اس آیت میں نہایت فصاحت و بلاغت سے ہوا ہے کہ:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ
’’ہم نے انسان کو مشقت ہی میں پیدا کیا ہے.‘‘

اس پر مستزادیہ ہے کہ اس کا المیہ دنیا کی زندگی ہی میں ختم نہیں ہوتا، بلکہ موت کے بعد اس کا اصل اور سخت تر مرحلہ شروع ہوتا ہے، گویا بقولِ شاعر ؎

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

انسانی ٹریجڈی یعنی المیے کا نقطۂ عروج 
(CLIMAX) یہ ہے کہ دنیا کی ساری محنتیں اور مشقتیں جھیل کر اور ساری کلفتیں سہہ کر اچانک اسے اپنے خالق و مالک کے سامنے محاسبے کے لیے بھی پیش ہونا پڑے گا، جہاں اسے اپنی زندگی بھر کے اعمال و افعال کی جواب دہی کرنی ہو گی. یہی نقشہ ہے جو قرآن کریم کی اس آیۂ کریمہ میں کھینچا گیا ہے.
یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ۱؎ 

’’اے انسان! تجھے مشقتیں سہتے، کھپتے کھپاتے ۱؎ الانشقاق: ۶ بہرحال اپنے رب کی خدمت میں حاضر ہونا ہے.‘‘

اور پھر اگر اس محاسبے میں اس کے خیالات و اعتقادات اور افعال و اعمال میں کجی کا پہلو غالب نکلا تو اُسے ہمیشہ ہمیش کے لیے درد ناک سزا اور اذیت بخش عذاب کے حوالے کر دیا جائے گا، اور یہی اصل خسران ہے. (ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ) ۱؎ اور مختصراً یہ ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کا حقیقی مفہوم.