یہ تو واضح ہے کہ پہلی آیت ایک قسم پر مشتمل ہے اور دوسری جواب قسم پر، یعنی دوسری آیت میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور پہلی میں اِس پر زمانے کی گواہی کی جانب اشارہ ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کے مابین منطقی ربط کیا ہے؟

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر یعنی زمانِ جاری یا زمانِ مسلسل ایک ایسی چادر کی مانند ہے جو اَزل سے ابد تک تنی ہوئی ہے. گویا زمانہ انسان کی تخلیق اوّلین سے لے کر نہ صرف انسان کی حیاتِ دنیوی اور اس کی پوری تاریخ بلکہ حیاتِ اُخروی اور اس کے جملہ مراحل کا چشم دید گواہ ہے. چنانچہ انسان کی محنت و مشقت اور رنج و الم سے بھرپور زندگی بھی اس کی نگاہوں کے سامنے ہے اور قوموں کے عروج و زوال کے تمام واقعات کا بھی وہ چشم دید گواہ ہے اور حیات اُخروی میں انسانی ٹریجڈی کا نقطۂ عروج بھی گویا اس کے بالکل سامنے موجود ہے. اس طرح اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍکاسب سے بڑا شاہد گویا زمانہ ہی ہے.

اس حقیقت ثابتہ پر ایک تنبیہ اور انذار کا مزید رنگ ہے جو لفظ والعصر کے استعمال سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ انسان کی ہلاکت اور تباہی اور خسرانِ حقیقی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ماحول اور اپنے فوری مسائل و معاملات ۱؎ الحج: ۱۱ میں اُلجھ کر گویا گمشدگی کی سی کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہے. بقولِ علامہ اقبال مرحوم ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق!

وَالْعَصْر 
کا لفظ انسان کو جھنجھوڑ کر غفلت سے بیدار کرتا ہے کہ غافل انسان! تیرا اصل سرمایہ وہ وقت ہے جو تیزی سے گذرا جا رہا ہے اور تیری اصل پونجی یہ مہلت عمر ہے جو سُرعت سے ختم ہو رہی ہی، اور اگر تو نے اِس میں اپنی شخصیت کی تعمیر نہ کر لی یا بقول علامہ اقبال اپنی خودی کو بلند نہ کر لیا تو پھر اَبدی ہلاکت اور تباہی سے دو چار ہونا پڑے گا. گویا بقول شاعر ؎

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی