عمل صالح کا عام ترجمہ اچھے اور نیک اعمال سے کیا جاتا ہے. لیکن خود اس لفظ کی گہرائی میں اتریئے تو مزید حقائق پر سے پردہ اُٹھتا ہے. اس لیے کہ ایک طرف تو اس کے باوجود کہ عمل اور فعل دو نہایت قریب المفہوم الفاظ ہیں، اِن کے معنی میں ایک باریک سا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ فعل کسی بھی کام کو کہہ دیں گے لیکن عمل کا اطلاق عام طور پر محنت طلب اور مشقت بخش کام پر ہوتا ہے، اور دوسری طرف صالح کا اطلاق ہر اُس چیز پر ہوتا ہے جس میں ترقی اور نشوونما کی صلاحیت موجود ہو. اب ان دونوں کو جوڑیئے تو معلوم ہوگا کہ اس اصطلاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنا وہ اصل مقام حاصل کرنے کے لیے جس پر اس کی بالقوہ (POTENTIALLY) تخلیق ہوئی ہے، ایک محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے اور ایک چڑھائی چڑھنی لازم ہے جس کا جامع عنوان عمل صالح ہے. گویا یہ وہی بات ہوئی جو کسی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کی کہ ؎
ف
رشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

سورۃ التین متعدد اعتبارات سے سورۃ العصر سے بہت مشابہ ہے، چنانچہ اس میں اِسی حقیقت کو زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ: 
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ 

یعنی انسان کی تخلیق اصلاً تو نہایت اعلیٰ مقام پر ہوئی تھی اور اِسے جنوں پر ہی نہیں فرشتوں پر بھی فضیلت عطا کر کے خلافت و نیابت الٰہی سے سرفراز فرمایا گیا تھا، لیکن پھر عملاً اسے عالم آب و گل میں مقید اور نفس امارہ کے پھندوں میں گرفتار کر کے گویا نیچے والوں میں سب سے نچلے مقام پر ڈال دیا گیا. اب اپنے اصل مقام کی بازیافت کے لیے لازم ہے کہ وہ علم حقیقی بھی حاصل کرے، یعنی ایمان کے نور سے اپنے باطن کو منور کرے اور عمل صحیح بھی اختیار کرے، یعنی اعمال صالح سے اپنے ظاہر کو مزین کرے اور شریعت اور طریقت کی راہوں پر گامزن ہو! چنانچہ یہی اس کی نجات(SALVATION) کے ابتدائی لوازم ہیں.