اسی طرح لفظ حق بھی معنی و مفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو واقعی ہو (یعنی محض خیالی اور وہمی نہ ہو) یا عقل کے نزدیک مسلم ہو یا اخلاقاً واجب ہو یا با مقصد اور غرض و غایت کی حامل ہو (یعنی بے کار اور لایعنی و عبث نہ ہو).

تو معلوم ہوا کہ تواصی بالحق کے معنی ہوں گے ہر اُس بات کا اقرار و اعلان اور ہر اس چیز کی دعوت و تلقین جو واقعی اور حقیقی ہو یا عقلاً ثابت ہو یا اخلاقاً واجب ہو. گویا حق کے دائرے میں چھوٹی سے چھوٹی صداقت سے لے کر کائنات کے بڑے بڑے حقائق و حقوق سب داخل ہو گئے، اور تواصی بالحق کے ذیل میں چھوٹی سے چھوٹی اخلاقی نصیحتوں سے لے کر اس سب سے بڑے حق کا اعلان بھی شامل ہو گیا کہ اس کائنات کا مالک حقیقی صرف اللہ ہے، اور صرف اُسی کو حق پہنچتا ہے کہ دنیا میں اُس کا حکم چلے اور اسی کا قانون نافذ ہو. پھر یہ کہ اِس حق کا صرف اعتراف و اعلان ہی نہ ہو، بلکہ اس کی عملی تنفیذ کے لیے جدوجہد کی جائے.

اس طرح تواصی بالحق کی جامع اصطلاح میں وہ سب مفہوم شامل ہیں جو قرآنِ حکیم کی بہت سی اصطلاحوں میں مضمر ہیں، جیسے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، یعنی ہر نیکی اور بھلائی کی دعوت دینا اور اس کا حکم دینا اور ہر بدی اور برائی سے منع کرنا اور روکنا، یا تواصی بالمرحمہ یعنی لوگوں کو باہم ایک دوسرے پر شفقت اور نرمی کرنے کی تلقین و نصیحت، یا دعوت الی اللہ یعنی لوگوں کو اپنے مالک حقیقی کی معرفت حاصل کرنے اور عبادت اختیار کرنے کی دعوت دینا یا جہاد فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد کرنا اور اس کے لیے اپنی جانیں کھپانا اور مال صرف کرنا.