اب تک ہم نے سورۃ العصر میں بیان شدہ نجات کی چار شرائط کو دو دو کے دو جوڑوں میں تقسیم کر کے دیکھ لیا ہے کہ ایک طرف ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں اور دوسری طرف تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی باہم لزوم رکھتے ہیں. اب ان دو جوڑوں کے مابین جو رشتہ اور تعلق ہے اسے بھی سمجھ لیں تو بات پوری ہو جائے گی.

یہ فطرت کا عام اُصول ہے کہ کوئی شے نہ ماحول سے متأثر ہوئے بغیر رہ سکتی ہے نہ اسے متاثر کیے بغیر. برف میں جو خنکی ہے وہ اپنے ماحول میں لازماً سرایت کرے گی اور آگ کی حرارت اپنے ماحول کو لازماً گرم کر دے گی. یہی معاملہ اخلاقیات کے میدان میں ہے. اگر کسی انسان میں عمل صالح حقیقتہً پیدا ہو جائے تو وہ لازماً ماحول میں اثر و نفوذ کرے گا اور اس سے نیکی اور بھلائی لازماً پھیلے گی. گویا عمل صالح کا فطری نتیجہ تواصی بالحق ہے.

انسانی اخلاقیات میں یہ اُصول اور بھی شدت کے ساتھ کارفرما ہوتا ہے. اگر اجتماعی ماحول خراب ہے تو اس کی خرابی لازماً افراد کی زندگیوں میں سرایت کرے گی، اور اس سے بچنے کی ایک ہی راہ ممکن ہے کہ ماحول کو تبدیل کر دیا جائے یا کم از کم اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد مسلسل جاری رکھی جائے. اس طرح اگر ماحول نہ بھی تبدیل ہو تو کم ازکم وہ فرد ’’جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘ (BEST DEFENCE IS OFFENCE) کے اُصول پر عمل پیرا ہو کر اپنا دفاع ضرور کر لے گا. اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرہٗ بَیْدِہٖ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان ۱؎ تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے بزورِ بازو (نیکی سے) بدل دے، پھر اگر اس کی قوت نہ رکھتا ہو تو زبان سے ضرور منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کم از کم دل سے ضرور مدافعت کرے. یعنی دل میں ضرور بُرا جانے اور اس کو نہ روک سکنے پر متأسف ہو اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے.

پھر تواصی بالحق انسان کی شرافت کا بھی لازمی تقاضا ہے. اس لیے کہ جو حق کسی انسان پر منکشف ہوا ہے اور جسے خود اس نے اختیار کیا ہے، اس کی انسان دوستی کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے دوسروں کے سامنے بھی پیش کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان اس سے نفع اندوز ہوں اور اس کی برکتوں سے متمتع ہو سکیں. اسی لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ۲؎ یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں قرار پا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے.

اور آخری درجہ میں یہ انسان کی غیرت اور حمیت کا تقاضا بھی ہے کہ جس حق کو اس نے خود قبول کیا ہے اس کا پرچار کرے، اس کا مبلغ اور علمبردار بنے اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے تن من دھن سے جدوجہد کرے.
سیدھی سی بات ہے کہ اگر انسان ایک خاص طرز کو اختیار کرتا ہے اور ماحول کسی اور رنگ میں رنگا ہوا ہے تو نظری طور پر دو ہی صورتیں ممکن ہیں. ایک یہ کہ ؏ 

’’زمانہ با تو نہ سازد تو باز مانہ بساز!‘‘ (۱) رواہ مسلم: عن ابی سعید الخدری ؓ کے مطابق خود بھی ماحول ہی کے رنگ میں رنگاجائے، تاکہ دوئی ختم ہو جائے اور تصادم باقی نہ رہے، اور دوسرے یہ کہ ؏ 

’’زمانہ باتو نہ سازد تو باز مانہ ستیز!‘‘

کی روش اختیار کر کے اور ماحول سے ٹکر لے کر اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرے. اب ظاہر ہے کہ ایک شریف، باوقار، غیور اور باحمیت انسان تو صرف ایک ہی راہ اختیار کر سکتا ہے اور وہ دوسری ہے نہ کہ پہلی. وہ اس کو تو گوارا کر لے گا کہ ’’بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا!‘‘ کے مصداق اپنی جان دے دے، لیکن اسے ہرگز گوارا نہیں کر سکتا کہ تن آسانی اور عافیت کوشی کی راہ پر چل کر حق سے غداری کا مرتکب ہو جائے.

الغرض… جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے نظر یہی آتا ہے کہ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک جانب تو نجات کے ناگزیر لوازم ہیں اور دوسری جانب خود باہم لازم و ملزوم ہیں. بلکہ ان چاروں پر علیحدہ علیحدہ قدرے گہرائی میں اتر کر غور کرنے سے جو حقیقت منکشف ہوئی، وہ یہ ہے کہ یہ چاروں ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو ہیں اور ایک ہی کل کے اجزائے غیر منفک ہیں. گویا بقولِ اقبالؒ : عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ؏ 

’’یہ سب کیا ہیں فقط اک نقطہ ایماں کی تفسیریں!‘‘

ایمان اگر حقیقی ہو جائے تو اس سے عمل صالح ضرور پیدا ہو گا، اور عمل صالح اگر پختہ ہو جائے تو لازماً تواصی بالحق پر منتج ہوگا،ا ور تواصی بالحق اگر واقعی اور حقیقی ہے تو تواصی بالصبر کا مرحلہ لازماً آ کر رہے گا، یہاں تک کہ اس کی عکسی صور ت (CONVERSE PREPOSITION) بھی بالکل درست ہے. یعنی یہ کہ تواصی بالصبر کا مرحلہ نہیں پیش آیا تو یہ قطعی ثبوت ہے اس کا کہ دعوت پورے حق کی نہیں ہے، بلکہ اس کے صرف کسی بے ضرر سے جزو کی ہے، اور اگر دعوت کا مرحلہ نہیں آتا تو یہ حتمی ثبوت ہے اس کا کہ انسان کا اپنا عمل صحیح اور پختہ نہیں ہے، اور اگر عمل درست نہیں ہو رہا تو یہ یقینی ثبوت ہے اس کا کہ ایمان حقیقی ہی موجود نہیں.

گویاسورۃ العصر نجات کی جس شاہراہ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے اور انسانی کامیابی کے لیے جس صراطِ مستقیم کی نشاندہی کرتی ہے اس کے چار سنگ ہائے میل ہیں. پہلا ایمان، دوسرا عمل صالح، تیسرا تواصی بالحق اور چوتھا تواصی بالصبر.