اور اس کی کامل اور مکمل مثال ہے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ جس میں یہ چاروں چیزیں اپنی بلند ترین شان کے ساتھ بتمام و کمال موجود ہیں.

حضورؐ نے سب سے پہلے اپنی اور کائنات کی حقیقت پر مطلع ہونا چاہا ور جب بفحوائے وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی کے جبریل امین علیہ السلام نے حقائق کا کامل انکشاف کیا تو اس کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے. جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ: 

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ
’’ایمان لایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر جو نازل کیا گیا اس پر اس کے رب کی جانب سے اور ایمان لائے اہل ایمان.‘‘

دوسری طرف آپ کی زندگی اخلاقِ حسنہ کا کامل نمونہ اور خلق عظیم کا شہکار تھی، جیسے کہ فرمایا گیا:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ
’’آپ یقینا نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل اور اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں.‘‘

ایمان اور عمل صالح کے ان بنیادی تقاضوں کو بتمام و کمال پورا کرنے کے بعد پھر مسلسل تئیس برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی دعوت اور ذاتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان و نفاذ کی انتھک جدوجہد میں صرف کیے اور اس راہ میں ہر تکلیف سہی، ہر مصیبت کو برداشت کیا، ہر مشکل کو جھیلا اور ہر مخالفت کا مردانہ وار مقابلہ کیا. چنانچہ شعب بنی ہاشم میں تین سال کی شدید ترین قید کی صعوبت بھی سہی، طائف کے بازاروں میں اوباشوں کی فقرہ بازی اور سنگ باری بھی برداشت کی، بدر اور اُحد میں خود اپنے دندانِ مبارک کے علاوہ اپنے قریب ترین اعزہ اور عزیز ترین جاں نثاروں کی جانوں کا ہدیہ بھی بارگاہِ ربانی میں پیش کیا، اور تئیس برس کی شبانہ روز محنت اور مشقت سے بالآخر حق کا بول بالا کر دیا اور خدا کے دین کو جزیرہ نمائے عرب میں غالب کر کے ہی رفیق اعلیٰ کی طرف مراجعت اختیار فرمائی.

فصلی اللہ علیہ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّم تسلیمًا کثیرًا کَثِیْرًا
گویا آنحضورؐ کی حیات طیبہ سورۃ العصر کی مجسم تفسیر ہے! فدا ہ ابی وامّی.

تو حضرات! یہ ہے سورۃ العصر کے مفہوم کی مختصر تشریح. اب آپ کو اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیوں میں نے اِسے قرآن مجید کی جامع ترین سورت قرار دیا تھا اور کیوں. امام شافعی ؒ نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ غور و فکر سے کام لیں تو تنہا یہی مختصر سی سورت اِن کی ہدایت و راہنمائی کے لیے کافی ہے.