اب ذرا ایک نظر قرآن مجید میں اس سورۂ مبارکہ کی سابق اور لاحق سورتوں پر بھی ڈال لیجئے.
میں نے عرض کیا تھا کہ انسان کے رویے کی درستی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے دل و دماغ میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار اور نفع و نقصان کا صحیح تصور نہ صرف یہ کہ جاگزیں ہو جائے بلکہ ہمیشہ مستحضر بھی رہے. اگر ایسا نہ ہو تو پھر لازماً انسان کے سامنے ایک ہی چیز بطورِ مقصود و مطلوب رہ جاتی ہے اور وہ ہے مال و اسبابِ دنیوی کی بہتات اور کثرت کی طلب، جو اس کے دل و دماغ پر اس درجہ مسلط اور مستولی ہو جاتی ہے کہ کائنات اور خود اپنی زندگی کی عظیم حقیقتوں سے غافل کر دیتی ہے اور غفلت کا یہ پردہ صرف موت ہی پرچاک ہوتا ہے. چنانچہ اسی کیفیت کا بیان ہے اُس سورۂ مبارکہ میں جو قرآن مجید میں سورۃ العصر سے پہلے ہے، یعنی سورۃ التکاثر.
اور پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے یعنی یہ کہ انسان صحیح و غلط میں بھی تمیز نہیں کرتا اور جائز و ناجائز اور حلال و حرام کا فرق بھی بالکل اُٹھا دیتا ہے، یہاں تک کہ دولت کے انبار لگا لینے کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھتا ہے اور اخلاق کے تمام محاسن سے تہی دست ہو جاتا ہے، اور اس کی شخصیت تمام معائب کی جامع ہو جاتی ہے. تو اس کی تصویر کھینچ دی گئی ہے اس سورۃ میں جو سورۃ العصر کے بعد ہے، یعنی سورۃ الہمزۃ. میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا اور آپ کا حشر ایسا ہو اور ہم اس انجامِ بد سے دو چار ہوں.