اور اس کے ساتھ میرے تعاہد ذہنی کی تاریخ!
میری بعض تعبیرات پر چند علماء کا اعتراض اور اس کے ضمن میں میری وضاحت، اور لفظ ’’وَتَوَاصَو‘‘ سے مولانا فراہیؒ کا وجوبِ قیام خلافت پر استدلال اور صاحب تدبر قرآن کا اس سے افسوس ناک اِغماض!
(اس کتاب کی طبع یازدہم کے موقع پر مؤلف کی وضاحت)
راقم الحروف کے قلب و ذہن پر سورۃ العصر کی عظمت کا اولین نقش اس وقت قائم ہوا تھا جب اغلباً ۱۹۵۳ء میں مولانا امین احسن اصلاحی کا ترجمہ کردہ ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘ پہلی بار شائع ہوا.
خوش قسمتی سے اس سے متصلاً قبل راقم قرآن پر تدبر اور تفکر کے اُس اسلوب اور طریق سے متعارف ہو چکا تھا جواب فراحیؒ مکتبہ فکر کے عنوان سے معروف و مشہور ہے، اس لیے کہ دسمبر ۵۱ء اور جولائی ۵۲ء کے دوران راقم نے جو دو تربیت گاہیں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام بحیثیت ناظم جمعیت لاہور اور ناظم جمعیت پنجاب منعقد کی تھیں، ان میں قرآن حکیم کے بعض مقامات دو مرتبہ مولانا فراہیؒ کے شاگردِ رشید مولانا اصلاحی سے لفظاً لفظاً پڑھ لیے تھے.
’’مجموعہ تفاسیر فراہیؒ ‘‘ میں سے راقم سب سے زیادہ متاثر تو ’’مقدمہ تفسیر نظام القرآن‘‘ سے ہوا جس کا ایک ایک لفظ راقم کے ذہن اور شعور کا جزو بنتا چلا گیا. رہیں مختلف اور متفرق سورتوں کی تفسیریں تو ان میں سے راقم کے ذہن و قلب نے سب سے زیادہ تأثر تفسیر سورۃ العصر سے قبول کیا، جس کے جملہ مباحث راقم کے قرطاس ذہن ہی نہیں لوح قلب پر بھی نقش ہوتے چلے گئے! باقی سورتوں کی تفسیر کے ضمن میں تو بہت سے مقامات کے بارے میں اُس وقت بھی میرا تاثر یہ تھاکہ اُن کے مطالب کو نظم قرآن اوربط آیات کے اُصولوں پر منطبق کرنے میں کسی قدر تکلف ہی نہیں باضابطہ کھینچ تان کا انداز پایا جاتا ہے. (اور اب توبعض تعبیرات سے مجھے شدید اختلاف بھی ہے)، لیکن سورۃ العصر کی تفسیر کے ایک ایک لفظ سے راقم کو اُس وقت بھی اتفاق تھا اور آج بھی، جب کہ پورے چالیس سال بیت چکے ہیں، اور ا س طویل عرصے کے دوران ذہن و فکر کے بہت سے نئے دریچے وا ہوئے اور تفسیر و تاویل قرآن کے ضمن میں بعض نئے زاویہ ہائے نگاہ سے تعارف ہوا، نتیجتاً میرے فکر قرآنی میں بعض نئے اعراض وابعاد (DIMENSIONS) کا اضافہ ہوا……سورۃ العصر کے جو مطالب و معانی مولانا فراہیؒ نے بیان کیے تھے ان کی صحت اور درستی پر انشراح و اطمینان میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی، بلکہ اضافہ ہی ہوا، اور خاص طور پر شرائطِ نجات اور لوازمِ فلاح کے جامع بیان یا بالفاظ دیگر صراطِ مستقیم کے سنگ ہائے میل کی نشاندہی کے ضمن میں، اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کا نقش جلی سے جلی تر اور عمیق سے عمیق تر ہوتا چلا گیا. چنانچہ سورۃ العصر کے بارے میں امام شافعیؒ کے الفاظ…… یعنی: ’’اگر لوگ صرف اسی ایک سورت پر تدبر کریں تو یہ ان (کی ہدایت) کے لیے کافی ہو جائے. اور ’’اگر قرآن میں اس ایک سورت کے سوا کچھ اور نازل نہ ہوتا تو تنہا یہ سورت بھی لوگوں (کی ہدایت) کے لیے کفایت کرتی! مجھے بالکل اس انداز میں اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگی کہ ؏
’’متفق گردیدرائے بو علی بارائے من!‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب راقم کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن کی ’’ہدایت‘‘ سے لوگوں کو متعارف کرانے کے لیے مطالعۂ قرآن حکیم کا ایک مختصر اور منتخب نصاب مرتب کیا جائے تواس کی اساس اور بنیاد راقم نے سورۃ العصر ہی کو بنایا. پھر اس کے حصہ اوّل میں چند اور مقامات ایسے شامل کیے جو لوازمِ فلاح کے بیان کی جامعیت کے اعتبار سے اسی کے ہم پلہ یا لگ بھگ ہیں، اور پھر ایک ایک حصہ اس سورۂ مبارکہ میں بیان شدہ چار شرائط نجات میں سے ایک ایک کی مزید وضاحت اور تفصیل پر مشتمل مقامات کے لیے مختص کیا. اور آخری اور چھٹا حصہ تنہا ’’اُمُ المسبحات‘‘ یعنی سورۃ الحدید کے لیے خاص کیا ،جو راقم کے نزدیک جہاں امت مسلمہ سے خطاب کے ضمن میں قرآن حکیم کا جامع ترین مقام بھی ہے اور ذَروۂ سنام بھی، وہاں فوزو فلاح کی بلند ترین منازل یعنی صدیقیت اور شہادت کے مراتب عالیہ کے حصول کی جدوجہد کے تقاضوں کے بیان کے ضمن میں جامعیت کی حامل ہونے کے اعتبار سے سورۃ العصر کی کامل مد مقابل ہے …… اس طرح گویا مطالعۂ قرآن حکیم کا میرا مرتب کردہ منتخب نصاب کل کا کل:
کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾ (ہود:۱)
کے مصداق سورۃ العصر ہی کی تفصیل پر مشتمل ہے. اوریہ بات اس اعتبار سے نہایت مناسب ہے کہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو سورۃ العصر کی نسبت پورے قرآنِ حکیم کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آم کی گٹھلی کو اس کے درخت سے ہوتی ہے، یعنی جیسے آم کی گٹھلی میں بالقوہ (POTENTIALLY) آم کا پورا درخت موجود ہوتا ہے، اسی طرح سورۃ العصر میں بالقوہ پورا قرآن موجود ہے. چنانچہ سورۃ العصر میں وارد پانچ کلمات یعنی والعصر، ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو قرآن حکیم کے جملہ مضامین کا جامع و کامل انڈکس قرار دیا جا سکتا ہے.
اس لیے کہ قرآنِ حکیم میں یا مباحث ایمانی ہیں، جن میں مثبت طور پر توحید، معاد اور رسالت کو دلائل اور براہین سے ثابت کیا گیا ہے یا ملحدین و مشرکین اور مشککین و منافقین کا مدلل رد و ابطال ہے…… یا مباحث اعمالِ صالحہ ہیں جن میں نہ صرف بنیادی انسانی اخلاقیات سے اخلاقِ عالیہ و فاضلہ تک، بلکہ حقوق اللہ سے حقوق العباد تک، اور عبادت سے معاملات تک شریعت کے جملہ احکام کا احاطہ کر لیا گیا ہے، یا دعوت و تبلیغ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے مباحث ہیں، جن کا جامع عنوان تواصی بالحق ہے یا جہاد و وقتال فی سبیل اللہ کے مباحث اور ان کے ضمن میں صبر و مصابرت کی تلقین و تاکید ہے جو سب تواصی بالصبر کے ذیل میں شمار کیے جا سکتے ہیں. ان کے علاوہ صرف قصص النبیین اور انباء ُالرسل ہیں یا مبدأ و معاد کی تفاصیل، یعنی عہد الست اور قصہ آدم و ابلیس سے لے کر جو زمانۂ ماضی سے متعلق ہیں، بعث بعد الموت، حشر و نشر، حساب کتاب، وزنِ اعمال او رپھر اصحاب الاعراف سمیت اہل جنت اور اہل دوزخ کے حالات و کوائف ہیں، جن کا تعلق زمانہ مستقبل سے ہے اور ظاہر ہے کہ ماضی اور مستقبل دونوں کے لیے کلمہ ’’والعصر‘‘ جامع ترین عنوان کی حیثیت رکھتا ہے. اس طرح گویا سورۃ العصر کی تشریح و توضیح اور تفصیل و اطناب کا پہلا مرحلہ مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ہے، اور اسی کی تکمیل پورے قرآن حکیم کی صورت میں ہوتی ہے،عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی ’‘الفوز الکبیر‘‘ میں جملہ مضامین قرآنی کو پانچ عنوانات کے ذیل میں منقسم قرار دیا ہے،… اور سورۃ العصر کے حوالے سے بھی قرآنِ حکیم کے جملہ مضامین پانچ ہی عنوانات کے ذیل میں آجاتے ہیں).
سورۃ العصر کے ساتھ راقم کے اس ’’تعاہد ذہنی‘‘ کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۶۶ء کے وسط میں جب میں نے ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کی ادارت سنبھالی تو جو اوّلین تحریر ہیں میرے قلم سے نکلیں ان میں سورۃ العصر کے تأثرات پر مشتمل وہ تحریر بھی تھی جو اس کتاب میں شامل ہے.
مطالعہ قرآن حکیم کے متذکرہ بالا منتخب نصاب کا سلسلہ وار اور مکمل درس راقم نے گزشتہ ثلث صدی کے دوران اندرونِ ملک اور بیرون پاکستان اگر سینکڑوں نہیں تو لازماً بیسیوں مرتبہ تو ضرور دیا ہے، جس میں ہر بار آغاز لازماً سورۃ العصر کے درس ہی سے ہوا. مزید برآں درس قرآن کی لاتعداد منتشر اور منفرد مجالس میں اس سورۂ مبارکہ کا درس دی گیا. ان میں سے ایچی سن کالج لاہور کا درس اس اعتبار سے ایک اہم علامت (LAND MARK) بن گیا کہ یہ کتابچے کی شکل میں شائع ہو کر بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا.……… اسی طرح ۱۹۷۹ء کاٹورنٹو (کینیڈا) کا درس اس بنا پر اہمیت اختیار کر گیا کہ اس کے آڈیوکیسٹ نہایت عمدہ معیار پر تیار ہو کر مشرق و مغرب کے بے شمار ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں پھیل گئے، اور ۱۹۸۵ء کا ابوظہبی (متحدہ عرب امارات) کا درس اس لیے مشہور ہو گیا کہ اس کے نہایت عمدہ وڈیو کیسٹ تیار ہو کر شرق و غرب میں دُور دُور تک پہنچ گئے.
ایچی سن کالج کی تقریر پر مشتمل کتابچہ جب وسیع حلقہ میں شائع ہوا تو بعض علماء کرام کی جانب سے اس پر تنقید بھی ہوئی، جن میں مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلہٗ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے نام قابل ذکر ہیں. ان میں سے حضرت مفتی صاحب نے تو پورا کتابچہ پڑھ کر اعتراض وارد کیے تھے جو سب کے سب خالص فقہی اعتبار سے تھے، جن کا کامل ازالہ اس ایک جملے سے ہو جاتا ہے جو راقم نے احتیاطاً بعد کے تمام ایڈیشنوں میں کور کے اندر کے صفحے پر شائع کرنے کا التزام کیا. وَھُوَ ھٰذا:
’’اس کتابچے پر بعض بزرگوں نے یہ گرفت فرمائی ہے کہ اس کی بعض عبارات سے عاصی اور گنہگار اہل ایمان کے اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے بعد جہنم سے رہائی پانے کی نفی ہوتی ہے. میں اس سے براء ت کرتا ہوں. میری رائے بھی یہی ہے کہ جس مسلمان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگاوہ بالآخر جہنم سے نجات پا جائے گا. اس کتابچے میں جہاں جہاں لفظ نجات آیا ہے اُس سے مراد اوّل دھلے میں نجات ہے، یعنی یہ کہ انسان کو جہنم میں بالکل ڈالا ہی نہ جائے اور میدان حشر ہی میں رحمت و مغفرت خداوندی اُس پر سایہ فگن ہو جائے! مزید برآں اس کتابچے کی زبان، قانون اور فتویٰ کی نہیں بلکہ ترغیب و ترہیب کی ہے…… ورنہ میرا موقف بھی وہی ہے جو امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کا …… یعنی گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے بھی کوئی شخص کافر نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ہی رہتا ہے.‘‘
رہا مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا معاملہ توراقم کو ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے پورے کتابچے کا مطالعہ نہیں کیا تھا، بلکہ ایک فتنہ پر ور شخص نے ان کی خدمت میں اس کی بعض عبارات کو سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے پیش کر دیا تھا، جس پر مولانا مرحوم نے ایک تنقیدی تحریر ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں شائع کرا دی. افسوس کہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد مولانا کا انتقال ہو گیا، ورنہ راقم کو یقین ہے کہ اگر اسے وضاحت کا موقع مل جاتا تو مولانا موصوف یقینا اپنی تنقید سے رجوع فرما لیتے.
بہرحال ذاتی طورپر میرے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے کہ مولانا مرحوم کے خویش کلاں مولانا طاسین مدظلہٗ نے اس کتابچے کی کلی تصویب فرما کر بڑی حد تک تلافی کی صور ت پیدا کر دی ہے. قارئین کی دلچسپی کے لیے مولانا موصوف کی یہ تحریر اس کتابچے کے آخر میں بطورِ ضمیمہ شامل کی جا رہی ہے.
اس کے باوجود بعض نوجوان علماء کو ایمان اور عمل صالح کے تلازمِ باہمی کے ضمن میں اس کتابچے کی بعض تعبیرات سی اختلاف ہے تو اس معاملے کی مکمل وضاحت راقم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’حقیقت ایمان‘‘ کے موضوع پر اپنے ان پانچ خطبات میں کر دی ہے، جو مارچ ۱۹۹۱ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سالانہ محاضراتِ قرآنی کے سلسلہ میں دیئے گئے تھے اور جو، اگر اللہ کے اِذن اور توفیق و تیسیر سے، کتابی صورت میں شائع ہو گئے تو ان شاء اللہ العزیز فکر قرآنی اور حکمت ایمانی کی راہ کا اہم سنگ میل ثابت ہوں گے. سردست اس موضوع پر عام قارئین کے اطمینان کے لیے مولانا سیدسلیمان ندویؒ کی ایک تحریر بھی شامل ضمیمہ کی جارہی ہے.
(ماخوذ از سیر ت النبیؐ جلد پنجم)
آخر میں ایک تلخ اور تکلیف دہ حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے. مولانا فراحیؒ نے تفسیر سورۃ العصر میں ایک باضابطہ فصل ’’لفظ وتواصو سے خلافت کا وجوب‘‘ کے عنوان سے قائم کی تھی، جس کے ذیل میں انہوں نے نہایت صحیح انداز میں اور بڑی عمدگی کے ساتھ ’’قیام خلافت‘‘ اور ’’اطاعت امیر‘‘ کا وجوب ثابت کیا تھا. مولانا فراہیؒ نے اپنی بحث کو جس قول فیصل پر ختم کیا ہے اس کا حوالہ اور اقتباس اگرچہ پیش نظر کتابچے میں موجود ہے، تاہم فوری ملاحظے کے لیے ذیل میں بھی درج کیا جا رہا ہے:
’’اس سے معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں، پھر ادائے حقوق کے معاملہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں، اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں اور خلافت کا قیام چونکہ اطاعت امیر پر منحصر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر اطاعت بھی موجود ہو.‘‘
مولانا حمید الدین فراہیؒ کے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی اس فکری پس منظر کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کی ’’تحریک اسلامی‘‘ میں شامل ہوئے تو اس ’’قران السعدین‘‘ سے بہت ساخیر ظہور میں آیا جس کا عظیم ترین مظہران کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ ہے. اس کتاب کا اہم ترین باب ’’تبلیغ کس لیے‘‘ ہے، جس کے آخر میں مولانا نے ایک طویل بحث کے لب لباب کو ’’خلاصۂ مباحث‘‘ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں درج کیا ہے:
اس پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے:
۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام دنیا میں قیامت تک کے لیے تبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی اس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تکمیل کا کام اپنی اُمت کے سپرد فرمایا، تاکہ یہ امت ہر ملک، ہر قوم اور ہر زبان میں قیامت تک اس دین کی تبلیغ کرتی رہے.
ب) اس تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط مقرر ہے کہ یہ دل سے کی جائے، زبان سے کی جائے، عمل سے کی جائے، بلا تقسیم و تفریق پورے دین کی کی جائے، بے خوف لو متہ لائم اور بے رورعایت کی جائے، اور اگر ضرورت داعی ہو تو جان دے کر کی جائے.
ج) اس جماعتی فرض کی ادائیگی کا باضابطہ ادارہ خلافت کا ادارہ تھا اور جب تک یہ ادارہ موجود تھا ہر مسلمان اس فرض کی ذمہ داریوں سے سبکدوش تھا.
د) اس ادارہ کے منتشر ہو جانے کے بعد اس فرض کی ذمہ داری امت کے تمام افراد پر ان کے درجہ اور استعداد کے لحاظ سے تقسیم ہو گئی.
ھ) اب اس فرض کی مسؤلیت اور ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے دو ہی راہیں مسلمانوں کے لیے باقی رہ گئی ہیں: یا تو اس ادارہ کو قائم کریں یا کم از کم اس کو قائم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائیں.
و) اگرمسلمان ان میں سے کوئی بات نہ کریں تو وہ اس فرض رسالت کو ادا نہ کرنے کے مجرم ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے سپرد کیاگیا ہے اور صرف اپنی ہی غلط کاریوں کا وبال اپنے سر نہ لیں گے، بلکہ خلق کی گمراہی کا وبال بھی ان کے سر آئے گا.
’’اس سے معلوم ہواکہ تبلیغ کے لیے اصل محرک درحقیقت اس فرض عظیم کا احساس ہے جو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور اس میں جو چیز بطور مطمح نظر اس وقت پیش نظر رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نظامِ دعوتِ خیر پھر وجود میں آجائے جو خلق کو اللہ کے دین کی راہ بتا سکے اور دنیا پر اتمام حجت کر سکے. جب تک یہ چیز دنیا میں موجود نہیں ہے ہر مسلمان کا سب سے مقدم اور سب سے بڑا او رسب سے اعلیٰ مقصد یہی ہے کہ اس کو وجود میں لانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے کرے. اسی کے لیے ہر مسلمان کو سونا اور جاگنا چاہئے، اسی کے لیے کھانااور پینا چاہئے اور اسی کے لیے مرنا اور جینا چاہئے. اس کے بغیر مسلمانوں کی زندگی خدا کے منشا کے بالکل خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ اپنی اس کوتاہی کے لیے کوئی عذر نہ کر سکیں گے. یہ چیز ان کی ہستی کی غایت ہے. اگر اس کو انہوں نے کھو دیا تو جس طرح وہ تمام چیزیں جو اپنے مقصد وجود کو کھو کر کوڑے کرکٹ میں شامل ہو جاتی ہیں، اسی طرح یہ بھی اس زمین کے خس و خاشاک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے لیے یہ ہر گز زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’اُمت ِوسط‘‘ یا ’’خیر امت‘‘ کے لقب کا مستحق سمجھیں یا اللہ تعالیٰ سے کسی نصرت و حمایت کی امید رکھیں.‘‘
لیکن اب سے لگ بھگ ایک برس قبل جب راقم کا قرآن حکیم کا سلسلہ وار درس سورۃ العصر تک پہنچا اور اس موقع پر ’’تدبر قرآن‘‘ سے بھی مراجعت کی گئی، تو یہ دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ حیرانی زیادہ ہوئی یا افسوس، کہ اگرچہ مولانا اصلاحی نے سورۃ العصر کی تفسیر میں تمام تر انحصار مولانا فراہیؒ کی تحقیق ہی پر کیا ہے، بلکہ تمام اہم مباحث وہیں سے ’’نقل‘‘ کیے ہیں (جس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’تدبر قرآن‘‘ میں تفسیر سورۃ العصر کل ۲۱۰ سطروں پر محیط ہے او ران سے ۱۴۰ سطریں مولانا فراہیؒ کی تفسیر کے اقتباسات پر مشتمل ہیں) لیکن افسوس صد افسوس کہ تواصی کے لزوم سے قیام خلافت کے وجوب اور اس کے لازمی تقاضے کے طور پر وجوب اطاعت امیر سے متعلق پوری فصل بالکل کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا کے سے انداز میں غائب کر دی گئی ہے.
نظری طور پر اس کے بہت سے وجوہ و اسباب ممکن ہیں جن میں سے بعض کے ضمن میں سوئِ ظن لازم آتا ہے. ان سے قطع نظر کرتے ہوئے اور اس اِغماض کو غیر شعوری
اور غیر ارادی ماننے کی صورت میں ایک ممکن توجیہہ تو یہ ہے کہ اِسے ضعیف العمری اور پیرانہ سالی اور اس سے متعلق اُس اٹل قانون قدرت پر محمول کیا جائے جس کا ذکر وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ(یٰس ٓ: ۶۸) کے الفاظ مبارکہ میں کیا گیا ہے، (یٰس ٓ: ۶۸) اور جس کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’ارذل العمر‘‘ سے اللہ کی پناہ طلب فرمایاکرتے تھے. ’’تدبر قرآن‘‘ میں سورۃ العصر کی تفسیر کی تحریر کے وقت مولانا کی عمر چھہتر برس تھی. لیکن راقم کے نزدیک اس کی دوسری زیادہ قرین قیاس توجیہہ یہ ہے کہ سولہ سترہ برس ’’تحریک اسلامی‘‘ میں نہایت فعال اور متحرک صورت میں بسر کرنے کے بعد جب مولانا اصلاحیؒ ۱۹۵۸ ء میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے ۱؎ تو ایک تویہی حادثہ ؏
’’فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے!‘‘
کے مصداق یہ میں مایوسی اور دل شکستگی پید اکرنے کے لیے بہت کافی تھا، پھر اس پر مستزاد یہ کہ جب ۵۸ء سے ۶۲ء تک کے چار سالوں کے دوران میں انہوں نے کسی نئی ہیئت اجتماعیہ کے قیام کے لیے سر توڑ کوششیں کیں اور ان میں انہیں پے بہ پے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اس سے جو شدید مایوسی اور بددلی پید اہوئی اس نے ایک جانب ان کے عزم و ہمت اور قوت ارادی کو کچل کر رکھ دیا اور دوسری جانب علامہ اقبال کے ان الہامی الفاظ کے مطابق کہ ؏
’’نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم عرفاں ہے!‘‘
ان کے قرآنی فکر اور دینی نظریات و تصورات کو زوال و اضمحلال کا شکار اور شکست خوردہ ذہنیت پر مبنی ترقی ٔ معکوس اور رجعت قہقری کا مظہر بنا کر رکھ دیا، فَیَا اَسَفَا وَ وَاحَسٔرَتَا.
یہی وجہ ہے کہ خود راقم کی محبوب ترین دعا وہ ہے جو سورۂ آل عمران کی آیت نمبر۸ ۱؎ اس علیحدگی کے وجوہ و اسباب اور اس کے سلسلے کے حوادث و واقعات کی تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں راقم کی تالیف: ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گم شدہ باب‘‘ میں وارد ہوئی ہے، یعنی رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ؕ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَابُ ، چنانچہ اس کتابچے کے ہر قاری سے بھی راقم کی استدعا ہے کہ وہ راقم کے حق میں دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے زندگی کے آخری لمحے تک اُس صراط مستقیم اور سواء السبیل پر بالفعل گامزن رکھے جس کے سنگ ہائے میل اس نے سورۃ العصر میں بیان فرمائے ہیں، اور اس ضمن میں اسے یہ توفیق دیئے رکھے کہ مولانا امین احسن اصلاحی ہی کے ایک قول کے مطابق اگر تیز سواری میسر ہو تو فبہا، اس سے سفر کرے، اگر ایسا نہ ہواور چھکڑے ہی دستیاب ہوں تو ان کے ذریعے سفر جاری رکھیے، یہ بھی نہ ہو تو دو ٹانگوں ہی سے کام لے اور اُس سواء السبیل پر گامزن رہے. اور یہ بھی نہ ہو اور کسی داخلی یا خارجی سبب سے ٹانگیں بھی شل ہو جائیں تب بھی ؏
’’گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!‘‘
کے مصداق اپنی نگاہوں کو تو منزل پر جمائے رکھیے اور کسی حال میں بھی منزلِ مقصود کو نگاہوں سے اوجھل اور سفر کی خواہش کو دل سے محو نہ ہونے دے.
آخر میں راقم خود بھی نہ صرف اپنے بلکہ اس کتابچے کے جملہ قارئین کے لیے دعا کرتاہے:
اللھم ربنا اجعلنا بفضلک وکرمک من عبادک الذین امنوا وعملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر اٰمین یا رب العلمین برحمتک یا ارحم الراحمین واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین!
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
لاہور. ۱۵؍مئی ۱۹۹۲ء