مولانا سید سلیمان ندوی ؒ کی بصیرت افروز تحریر

(ماخوذ از سیرت النبیؐ جلد پنجم)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس تعلیم کو لے کر آئے، اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی نجات و فلاح دو چیزوں پر موقوف ہے، ایک ایمان اور دوسری عملِ صالح. کتاب سیرۃ النبیؐ کی گذشتہ چوتھی جلد ایمان کی شرح و توضیح میں تھی، اب یہ پیش نظر حصہ عمل صالح کی تشریح و بیان میں ہے. ایمان بنیادی اصولوں پر یقین کامل رکھنے کا نام ہے اور عمل صالح ان اصولوں کے مطابق عمل کا. کسی بات کا تنہا علم و یقین کامیابی کے لیے کافی نہیں، جب تک اس علم و یقین کے مطابق عمل بھی نہ ہو.

اسلام نے انسان کی نجات او رفلاح کو انہی دو چیزوں یعنی ایمان و عمل صالح پر مبنی قرار دیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ عوام میں ایمان کو جو اہمیت حاصل ہے وہ عمل صالح کو نہیں، حالانکہ یہ دونوں لازم و ملزوم کی حیثیت سے عملاً یکساں اہمیت رکھتے ہیں، فرق صر ف اتنا ہے کہ ایمان بنیاد ہے اور عمل صالح اس پر قائم شدہ دیوار یا ستون. جس طرح کوئی عمارت بنیاد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح وہ دیوار یا ستون کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہو سکتی.

ان دونوں کی بہترین مثال اقلیدس کے اصول اور اشکال کی ہے. ایمان کی حیثیت اصولِ موضوعہ اور اصول متعارفہ کی ہے جن کو صحیح مانے بغیر اقلیدس کی شکلوں کا ثبوت محال ہے،لیکن اگر صرف اصول موضوعہ اور اصول متعارفہ کو تسلیم کر لیا جائے او ران کے مطابق شکلوں کا عمل نہ کیا جائے توفن تعمیر و ہندسہ اور مساحت و پیمائش میں اقلیدس کا فن ایک ذرّہ کار آمد نہیں ہو سکتا، اور نہ اس سے انسان کو وہ فائدے حاصل ہو سکتے ہیں جو اس فن سے اصل مقصود ہیں.

عوام کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ اس بارے میں قرآن پاک کی تعلیم کو تفصیلاً پیش کیا جائے، قر آن پاک نے انسان کی فلاح و کامیابی کے ذریعہ کو بیسیوں آیتوں میں بیان کیا ہے، مگر ہر جگہ بلا استثناء ایمان اور عمل صالح دونوں پر اس کو مبنی قرار دیا ہے اور ہر جگہ ایمان کو پہلی اور عمل صالح کو دوسری مگر ضروری حیثیت دی ہے، فرمایا:
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ (العصر: ۱ تا ۳’’ زمانہ (مع اپنی پوری انسانی تاریخ کے) گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، لیکن وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے.‘‘

زمانہ کی پوری انسانی تاریخ اس حقیقت پر شاہد عادل ہے کہ انہی افراد اور قوموں پر فوز و فلاح اور کامیابی کے دروازے کھلے ہیں، جنہیں ربانی حقائق کا یقین تھا اور اس یقین کے مطابق ان کے عمل بھی نیک ہوتے رہے، ایک دوسری آیت میں فرمایا:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾ (التین: ۴ تا ۶)
’’بیشک ہم نے انسان کو بہترین حالت ِدرستی میں پیدا کیا. پھر اس کو سب سے نیچوں کے نیچے لوٹا دیا. لیکن جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لیے نہ ختم ہونے والی مزدوری ہے.‘‘

اس آیت میں انسانی فطرت کی بہترین صلاحیت کو پھر خود انسانوں کے ہاتھوں سے اس کی بدترین منزل تک پہنچ جانے کو بیان کیا گیا ہے، لیکن اس بدترین منزل کی پستی سے کون بچائے جاتے ہیں، وہ جن میں ایمان کی رفعت اور عمل صالح کی بلندی ہے. یہود سے، جن کو یہ دعویٰ تھا کہ بہشت انہی کے ٹھیکہ میں ہے، یہ فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ (البقرہ: ۸۲)
’’اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہی جنت والے ہیں.‘‘

یعنی جنت کا حصول نسل اور قومیت پر موقوف نہیں، بلکہ ایمان اور صالح عمل پر ہے. جو شخص جنت کے لیے یہ قیمت ادا کرے گا وہ اسی کی ملکیت ہے، فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۹﴾ (المائدہ: ۶۹)
’’بے شک جو مسلمان ہیں اور جو یہود ہیں اور صائبین اور نصاریٰ، جو کوئی اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام کرے، نہ تو ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے.‘‘

اس آیت کا منشا بھی یہی ہے کہ فلاح و نجات کا حصول کسی نسل و قومیت پر موقوف نہیں اور نہ کسی مذہب وملت کی طرف رسمی نسبت پر ہے، بلکہ احکام الٰہی پر یقین لانے اور ان کے مطابق عمل کرنے پر ہے. عدم ایمان او ربدکاری کا نتیجہ، دُنیا اور آخرت کی تباہی،ایمان اور نکوکاری کا نتیجہ دین و دنیا کی بہتری، اللہ تعالیٰ کا وہ طبعی قانون ہے جس میں نہ کبھی بال برابر فرق ہوا اور نہ ہو گا، چنانچہ ذوالقرنین کی زبانی یہ فرمایا:

قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸۷﴾وَ اَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ (الکہف ۸۷،۸۸’’اس نے کہا: جو کوئی گناہ کا کام کرے گا تو ہم اس کو (دنیا میں) سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹا دیا جائے گا تو وہ اس کو بری طرح سزا دے گا. اور جو کوئی ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو اس کے لیے بدلہ کے طورپر بھلائی ہے.‘‘
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ۚ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوۡنَ ﴿۹۴﴾ (الانبیاء: ۹۴)
’’تو جو کوئی نیک عمل کرے او روہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش اکارت نہ ہوگی، اور ہم اس کے (نیک عمل) لکھتے جاتے ہیں.‘‘

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ﴿ۙ۶۰﴾ (مریم :۵۹، ۶۰)
’’تو ان کے بعد ان کے ایسے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور نفسانی خواہشوں کی پیروی کی تو وہ گمراہی سے ملیں گے، لیکن جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے تو وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کا ذرا سا حق بھی مارا نہ جائے گا.‘‘

اس سے اور اسی قسم کی دوسری آیتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جنت کا استحقاق دراصل انہی کو ہے جو ایمان اور پھر ایمان کے مطابق عمل سے بھی آراستہ ہیں، اور جو عمل سے محروم ہیں وہ اس استحقاق سے بھی محروم ہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ بخشش فرمائے.
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ رَوۡضٰتِ الۡجَنّٰتِ ۚ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿۲۲﴾ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ (الشوریٰ ۲۱،۲۲)
’’اور جو ایمان لائے اور نیک کام کیے وہ جنت کے باغوں میں ہوں گے، ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس وہ ہے جو وہ چاہیں، یہی بڑی مہربانی ہے. یہی وہ ہے جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے.‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتۡ لَہُمۡ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا ﴿۱۰۷﴾ۙ (الکہف: ۱۰۷)
’’بے شک جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کی مہمانی کے لیے باغِ فردوس ہیں.‘‘

پھر آگے چل کر فرماما:

ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪ (الکہف: ۱۱۰’’تو جس کو اپنے پروردگار سے ملنے کی امید ہو تو چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بنائے.‘‘

ایمان کے ہوتے عمل سے محرومی تو محض فرض ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں عمل کی کمی ہے اسی کے بقدر ایمان میں بھی کمزوری ہے. کسی چیز پر پورا یقین آ جانے کے بعد اس کے برخلاف عمل کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہے. آگ کو جلانے والی آگ یقین کر لینے کے بعد پھر کون اس میں اپنے ہاتھ کو ڈالنے کی جرأت کر سکتاہے، لیکن نادان بچہ جو ابھی آگ کو جلانے والی آگ نہیں جانتا وہ بارہا اس میں ہاتھ ڈالنے کو آمادہ ہو جاتا ہے، اس لیے عمل کا قصور ہمارے یقین کی کمزوری کا راز فارش کرتا ہے.

یہی سبب کہ تنہا ایمان یا تنہا عمل کو نہیں، بلکہ ہر جگہ دونوں کو ملا کر نجات کا ذریعہ بتایا ہے:

فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۵۶﴾ (الحج:۵۶)
’’تو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ آرام کے باغوں میں ہوں گے.‘‘

اسی طرح قرآن پاک میں تھوڑے تھوڑے تغیر سے ۴۵ موقعوں پر یہ آیت ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ… (الرعد: ۲۹)
’’جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے.‘‘

اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں ایمان اور عمل باہم ایسے لازم و ملزوم ہیں، جو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے اور نجات اور فوز و فلاح کا مدار ان دونوں پر یکساں ہے، البتہ اس قدر فرق ہے کہ رتبہ میں پہلے کو دوسرے پر تقدم حاصل ہے.

جن مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے دنیاوی حکومت وسلطنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ بھی وہی ہیں جن میں ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی ہو:

وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور: ۵۵)
’’تم میں سے ان سے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے خدا نے وعدہ کیا کہ ان کو زمین کا مالک بنائے گا.‘‘

آخرت کی مغفرت اور روزی کا وعدہ بھی انہی سے تھا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ (الفتح: ۲۹)

’’اللہ نے ان میں سے ان سے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے، بخشائش اور بڑی مزدوری کا وعدہ کیا.‘‘ بعض آیتوں میں ایمان کے بجائے اسلام یعنی اطاعت مندی، اور عمل صالح کی جگہ احسان یعنی نیکو کاری کو جگہ دی گئی ہے، مثلاً ایک آیت میں یہود اور نصاریٰ کے اس دعویٰ کی تردید میں کہ بہشت میں صرف وہی جائیں گے، فرمایا:

بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪ (البقرہ: ۱۱۲)
’’کیوں نہیں، جس نے اپنے کو اللہ کے تابع کیا اور وہ نیکو کار ہے، تو اس کی مزدوری اس کے پروردگار کے پاس ہے، نہ ڈر ہے ان کو اور نہ غم.‘‘

ان تمام آیتوں سے یہ اصول ثابت ہوتا ہے کہ نجات کا مدار صرف ایمان پر نہیں، بلکہ ایمان کی ساتھ عمل صالح پر ہے، اور یہی وہ سب سے بڑی صداقت ہے جس سے اسلام سے پیشتر مذاہب میں افراط اور تفریط نمایاں تھی. عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط ۱؎ میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا مدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نزوان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صر ف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام نے انسان کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح) دونوں اعمال کو ملا کر قرار دیا ہے. یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں. پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو، یہ عمل صالح ہے، اور ہر قسم کی کامیابیوں کا مدار انہی دو باتوں پر ہے. کوئی مریض صرف اصولِ طبی کو صحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے. اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز و فلاح کے لیے کافی نہیں، جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل نہ کیا جائے. 

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾ … وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ (المؤمنون: ۱،۵،۸،۱۰
’’وہ ایمان والے مراد کو پہنچے، جو نمازمیں عاجزی کرتے ہیں، اور جو نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کرتے، اور جو زکوٰۃ دیتے ہیں، اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں…‘ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں، اور جو اپنی نمازوں کے پابند ہیں. یہی بہشت کے وارث ہیں.‘‘ ۱؎ رومیوں کے نام ۳و۴ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو ہمارے مادی علل و اسباب کے تابع فرمایا ہے، یہاں کی کامیابی اور فوز و فلاح بھی صرف ذہنی عقیدہ اور ایمان سے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اس عقیدہ کے مطابق عمل بھی نہ کیا جائے.

صرف اس یقین سے کہ روٹی ہماری بھوک کا قطعی علاج ہے ہماری بھوک رفع نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے لیے ہم کو جدوجہد کر کے روٹی حاصل کرنا اور اس کو چبا کر اپنے پیٹ میں نگلنا بھی پڑے گا. اس عقیدہ سے کہ ہم کو ہماری ٹانگیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ نہیں سکتے، جب تک اس یقین کے ساتھ ہم اپنی ٹانگوں کو بھی خاص طور سے حرکت نہ دیں. یہی صورت ہمارے دوسرے دنیاوی اعمال کی ہے. اسی طرح اس دنیا میں عمل کے بغیر تنہا ایمان کامیابی کے حصول کے لیے بیکار ہے، البتہ اس قدر صحیح ہے کہ جو ان اصولوں کو صرف صحیح باور کرتا ہے وہ اس سے بہرحال بہتر ہے جو ان کو سرے سے نہیں مانتا، کیونکہ اوّل الذکر کے کبھی نہ کبھی راہِ راست پر آ جانے اور نیک عمل بن جانے کی امید ہو سکتی ہے، اور دوسرے کے لیے تو اوّل پہلی ہی منزل باقی ہے، اس لیے آخرت میں بھی وہ منکر کے مقابلہ میں شاید اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا زیادہ مستحق قرار پائے کہ کم از کم وہ اس کے فرمان کو صحیح باور تو کرتا تھا.