عرضِ مرتّب

ربِّ کائنات نے انسانِ اوّل (آدم علیہ السلام ) کی تخلیق کے بعد اس کے جسد ِ خاکی میں اپنی روح پھونکی اور اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا. اس منصب پر تقرر کے وقت آدم کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی تھی کہ اُس کا اور تمام جہان کا معبود‘ مالک اور حاکم اللہ تعالیٰ ہے اور یہ دنیا اس کے لیے دارالامتحان ہے. اس دنیا میں انسان کو اس شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہے کہ وہ زمین پر حاکم نہیں‘ خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے‘ اسے یہاں اپنے معبودِ واحد کا بندہ بن کر رہنا ہے‘ جو اُس کا خالق و مالک اور حاکم ہے ‘اور اُسے اپنے حاکم اور مالک کی جانب سے جو ہدایات اور احکام موصول ہوتے رہیں گے اُنہیں اُس نے اپنا لائحۂ عمل اور ضابطہ ٔ حیات بنانا ہے. انسان کے لیے یہی درست طرزِ عمل ہے جسے اپنا کر وہ اِس دارالامتحان میں کامیاب قرار پائے گا اور اپنے حاکم اور مالک کی رضا کے نتیجے میں ابدی راحت و مسرت کے گھر یعنی جنت کا مستحق ٹھہرے گا.

زمین پر انسانی زندگی کا آغاز جہالت کی تاریکیوں میں نہیں‘ بلکہ ہدایت کی روشنی میں ہوا اور انسان کا دستورِ حیات ’’اسلام‘‘ قرار دیا گیا. پہلا انسان پہلا نبی بھی تھا جس نے اپنی اولاد کو اللہ کی بندگی کا درس دیا. لیکن نسل آدم رفتہ رفتہ غفلت کا شکار ہوتی گئی اور اپنے دستورِ حیات سے منحرف ہو کر غلط راستوں پر بھٹکنے لگی. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں ہی میں سے انتخاب کر کے انبیاء و رُسل کا سلسلہ جاری فرمایا ‘جو اپنے ابنائے نوع کو اللہ کی بندگی اور دین اسلام کی پیروی کی دعوت دیتے رہے. لیکن ہر دور میں ایسا ہوتا رہا کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد تو اس دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوتی‘ اور جو لوگ انبیاء و رُسل کی دعوت قبول کر لیتے وہ بھی رفتہ رفتہ بگاڑ کا شکار ہو جاتے اور اپنے پاس موجود آسمانی ہدایت کو من مرضی کی تحریفات سے مسخ کر دیتے. 

جیسے جیسے نوعِ انسانی شعور کی منازل طے کرتی گئی ربِّ کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہدایت بھی ارتقاء پذیر رہی‘ تاآنکہ نبی آخر الزمان محمد ِعربی پر یہ ہدایت اپنی تکمیلی شان کے ساتھ قرآن حکیم کی صورت میں نازل ہو گئی‘ جسے خود اس کے نازل کرنے والے نے ’’الہُدٰی‘‘ (The Final Guidance) قرار دیا اور ہر قسم کی تحریف سے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا. محمد رسول اللہ کی دعوت و تبلیغ میں قرآن حکیم کو مرکز و محور کی حیثیت حاصل تھی. آپ نے اس قرآن کی بنیاد پر نہ صرف دنیا کو ایک نظامِ عدلِ اجتماعی عطا فرمایا بلکہ اس عادلانہ نظام پر مبنی ایک صالح معاشرہ بھی بالفعل قائم کر کے دکھایا. آپ نے اس قرآن کی راہنمائی میں انقلاب کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے نوعِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا فرما دیا. چنانچہ یہ قرآن محض ایک کتاب نہیں ’’کتابِ انقلاب‘‘ ہے ‘ اور اس شعور کے بغیر قرآن مجید کی بہت سی اہم حقیقتیں قرآن کے قاری پر منکشف نہیں ہو سکتیں.

اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے صدر مؤسس مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور بانی ٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ کو جنہوں نے اِس دور میں قرآن حکیم کی اس حیثیت کو بڑے وسیع پیمانے پر عام کیا ہے کہ یہ کتاب اپنی دیگر امتیازی حیثیتوں کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ کا آلۂ انقلاب اور آپؐ کے برپا کردہ انقلاب کے مختلف مراحل کے لیے بمنزلۂ مینول (manual) بھی ہے‘ لہذا اس کا مطالعہ آنحضور کی دعوت و تحریک اور انقلابی جدوجہد کے تناظر میں کیا جانا چاہیے اور اس کے قاری کو خود بھی ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ پر مبنی انقلابی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیے. بصورتِ دیگر وہ قرآن حکیم کے معارف کے بہت بڑے خزانے تک رسائی سے محروم رہے گا. محترم ڈاکٹر صاحب پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فضل و احسان ہے کہ اُس نے انہیں اپنی کتابِ عزیز کی خدمت کے لیے چن لیا ہے. چنانچہ محترم ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اپنی زندگی قرآن حکیم کے علم و حکمت کی نشرو اشاعت کے لیے وقف کر رکھی ہے‘ بلکہ انہوں نے قرآن حکم کے پیغام کی روشنی میں ’’دینی فرائض کے جامع تصور‘‘ کی ادائیگی کے لیے تنظیم اسلامی کے نام سے ایک قافلہ بھی تشکیل دیا ہے.

پیش نظر کتاب ’’تعارفِ قرآن‘‘ محترم ڈاکٹر صاحب کے چند خطابات کا مجموعہ ہے‘ جسے مرتب کرنے کی سعادت راقم الحروف کے حصے میں آئی ہے. راقم کی شدید خواہش ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کے شہرۂ آفاق ’’دورۂ ترجمۂ قرآن‘‘ کو بھی مرتب کر کے تحریری صورت میں پیش کر سکے. چنانچہ اللہ کے نام سے اس کا آغاز کر دیا گیا ہے. اس عظیم کام کے لیے یہ عاجز اللہ تعالیٰ سے اُس کی تائید و توفیق اور عزم و ہمت کا طلب گار ہے.

حافظ خالد محمود خضر
فروری ۲۰۰۶ ء
مدیر شعبہ مطبوعات