سب سے پہلی بات کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے‘ خود قرآن مجید سے ثابت ہے. چنانچہ سورۃ التوبہ کی آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم سے فرمایا: 

وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ 
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے ‘ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو.‘‘

جب سورۃ التوبہ کی پہلی چھ آیات نازل ہوئیں‘ جن میں مشرکین عرب کو آخری الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو چار ماہ کی مدّت کے خاتمے کے بعد تمہارا قتل عام شروع ہو جائے گا ‘تو اس ضمن میں نبی اکرم کو ایک ہدایت یہ بھی دی گئی کہ یہ اَلٹی میٹم دیے جانے کے بعد اگر مشرکین میں سے کوئی آپؐ ‘ کی پناہ طلب کرے تو وہ آپؐ کے پاس آ کر مقیم ہو اور کلام اللہ کو سنے‘ جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے‘ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دیا جائے. یعنی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہیں اس سے مطالبہ کیا جائے کہ فیصلہ کرو کہ آیا تم ایمان لاتے ہو یا نہیں. اس وقت میں نے اس آیت کا حوالہ صرف ’’کلام اللہ‘‘ کے الفاظ کے لیے شہادت کے طور پر دیا ہے.