اب ذرا قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کے حوالے سے ایک اور بات ذہن نشین کر لیجیے. تورات میں کتابِ استثناء یا سِفر استثناء جوصحف موسٰی میں سے ایک صحیفہ ہے‘ کے اٹھارہویں باب میں نبی اکرم کے لیے جو پیشین گوئی بیان کی گئی ہے اس میں الفاظ یہی ہیں کہ :

’’میں ان کے بھائیوں میں سے ان کے لیے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اوراس کے مُنہ میں اپنا کلام ڈالوں گا اور وہ اُن سے وہی کچھ کہے گا جومَیں اس سے کہوں گا‘‘.

مَیں نے یہاں خاص طور پر ان الفاظ کا حوالہ دیا ہے کہ ’’مَیں اُس کے مُنہ میں اپنا کلام ڈالوں گا.‘‘ یہاں ایک تولفظ کلام آیا ہے جیسے کہ قرآن حکیم کی اس آیت میں آیا: حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ پھر ’’کلام مُنہ میں ڈالنا‘‘کے حوالے سے قرآن مجید میں ایک لفظ دو مرتبہ آیا ہے‘ وہ لفظ ’’قول‘‘ ہے‘ یعنی قرآن کو قول قرار دیا گیا ہے. 
سورۃ الحاقہ میں ہے:

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۚۙ۴۰﴾وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾وَ لَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾ 

اور سورۃ التکویر میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾وَ مَا صَاحِبُکُمۡ بِمَجۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۲﴾ 

اور اسی میں آگے چل کر آیا:
وَ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾ 

قابل توجہ امر یہ ہے کہ ان دو مقامات میں سے مؤخرالذکر کے متعلق تقریباً اجماع ہے کہ یہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام مراد ہیں. گویا قرآن کو اُن کا قول قرار دیا گیا. اور سورۃ الحاقہ میں اسے نبی اکرم کا قول قرار دیا جا رہا ہے. اب ظاہر ہے یہاں جن چیزوں کی نفی کی جا رہی ہے کہ’’ یہ کسی شاعر کا قول نہیں‘‘ اور ’’یہ کسی کاہن کا قول نہیں‘‘ ان سے یقیناً رسول کریم  مراد ہیں. یوں سمجھئے کہ اللہ کا کلام پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام پر نازل ہوا .اگر مَیں کتاب استثناء کے الفاظ استعمال کروں تو یہاں’’ اللہ نے اپنا کلام ان کے مُنہ میں ڈالا‘‘. تاہم ’’اُن کے مُنہ‘‘ کا ہم کوئی تصور نہیں کر سکتے‘ وہ نہایت جلیل القدر فرشتے ہیں. بہرحال قول کا لفظ قرآن مجید کے لیے استعمال ہوا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ابتداء ً کلامِ الٰہی حضرت جبرئیل ؑکے قول کی شکل میں اترا اور پھر حضرت جبرئیل ؑکے ذریعے سے حضرت محمدٌ رسول اللہ کے مُنہ میں ڈالا گیا‘ اور وہاں سے یہ قولِ محمد کی صورت میں لوگوں کے سامنے آیا‘ اس لیے کہ یہ آپؐ ہی کی زبانِ مبارک سے ادا ہوا‘ لوگوں نے اُسے صرف آپ ہی کی زبانِ مبارک سے سنا. گویا یہ قول‘ قولِ شاعر نہیں‘ یہ قولِ کاہن نہیں‘ یہ قولِ شیطان رجیم نہیں‘ بلکہ یہ قولِ رسولِ کریم ہے اور رسولِ کریم اوّلاً محمد رسول اللہ ہیں‘ یہ لوگوں کے سامنے ان کے قول کی حیثیت سے آیا. پھر ثانیاً یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا قول ہے‘ اس لیے کہ انہوں نے یہ قول حضورؐ کو پہنچایا. اوراس کو آخری درجے تک پہنچانے پر یہ اللہ کا کلام ہے جس کے متعلق تورات میں الفاظ آئے کہ ’’ مَیں اس کے مُنہ میں اپنا کلام ڈالوں گا.‘‘