قرآن مجید کے محمد رسول اللہ پر نزول کے ضمن میں بھی چند باتیں نوٹ کر لیں. پہلی بحث تو ’’ نزول‘‘ کی لغوی بحث سے متعلق ہے. یہ لفظ نَزَلَ‘ یَنْزِلُ ثلاثی مجرد میں بھی آتا ہے. تب یہ فعل لازم ہوتا ہے ‘یعنی ’’خود اترنا‘‘. قرآن مجید کے لیے ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں متعدد بار آیا ہے. مثلاً: وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ (بنی اسرائیل :۱۰۵’’ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے‘‘. یہاں یہ فعل لازم آ رہا ہے ‘یعنی نازل ہوا . عام طور پر فعل لازم کو متعدی بنانے کے لیے اس فعل کے ساتھ کسی صلہ ‘ (preposition) کا اضافہ کیا جاتا ہے. چنانچہ یہ فعل نَزَلَ ’’بِ‘‘ کے ساتھ متعدی ہو کر بھی قرآن مجید میں آیا ہے‘ بمعنیٰ اُس نے اتارا‘ جیسے جَاءَ ’’وہ آیا‘‘ سیجَاءَ بِہٖ ’’وہ لایا‘‘. مثلاً: نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙعَلٰی قَلۡبِکَ... (الشعراء) یعنی رُوح الامین (جبرائیل) نے اس قرآن کو اُتارا ہے محمد کے قلبِ مبارک پر.