نزولِ قرآن کی دو کیفیتیں: اِنزال اور تنزیل

ثلاثی مزید فیہ کے دو ابواب یعنی بابِ افعال اور باب تفعیل سے یہ لفظ قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوا ہے. دونوں ابواب سے یہ فعل متعدی کے طور پر بمعنیٰ’’اتارنا‘‘ استعمال ہوتا ہے ‘یعنی اَنْزَلَ‘ یُنْزِلُ‘ اِنْزَالاً اور نَزَّلَ‘ یُنَزِّلُ‘ تَنْزِیْلًا. ان دونوں کے مابین فرق یہ ہے کہ بابِ افعال میں کوئی فعل دفعۃًاور یک دم کر دینے کے معنی ہوتے ہیں جبکہ باب تفعیل میں وہی فعل تدریجاً ‘اہتمام ‘توجہ اور محنت کے ساتھ کرنے کے معنی ہوتے ہیں. ان دونوں کے مابین فرق کو ’’اِعلام‘‘ اور ’’تعلیم‘‘ کے معنی کے فرق کے حوالے سے بہت ہی نمایاں طور پر اور جامعیت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے. ’’اِعلام‘‘کے معنی ہیں بتا دینا. یعنی آپ نے کوئی چیز پوچھی تو جواب دے دیا گیا. چنانچہ ’’Information Office‘‘ کو عربی میں ’’مکتب الاعلام‘‘ کہا جاتا ہے. جبکہ ’’تعلیم‘‘ کے معنی ذہن نشین کرانا اور تھوڑا تھوڑا کر کے بتانا ہے .یعنی پہلے ایک بات سمجھا دینا ‘ پھردوسری بات اس کے بعد بتانا اور اس طرح درجہ بدرجہ مخاطب کے فہم کی سطح بلند سے بلند تر کرنا. 

اگرچہ قرآن مجید کے لیے لفظ ’’اِنْزَال‘‘ اور اس سے مشتق مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘لیکن بکثرت لفظ ’’تنزیل‘‘ استعمال ہوا ہے. قرآن مجید کی اصل شان تنزیلی شان ہے ‘یعنی یہ کہ اس کو تدریجاً ‘رفتہ رفتہ‘ تھوڑا تھوڑااورنجماً نجماً نازل کیا گیا.چنانچہ قرآن مجید کے حضور پر نزول کے لیے صحیح تر اور زیادہ مستعمل لفظ قرآن حکیم میں تنزیل ہے‘ تاہم دو مقامات پر لَیْلَۃُ الْقَدْرِ اور لَیْلَۃٌ مُّبَارَکَۃٌ کے ساتھ انزال کا لفظ آیا ہے . فرمایا: اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ (القدر) اور: اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ (الدُّخان:۳اسی طرح شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ (البقرۃ:۱۸۵میں بھی لفظ ’’انزال‘‘ استعمال ہوا ہے. پھر حضور پر نزول کے لیے بھی کہیں کہیں لفظ ’’انزال‘‘ آیا ہے ‘اگرچہ اکثر و بیشترلفظ ’’تنزیل‘‘ ہی آیا ہے. اس کی تقریباً مجمع علیہ تاویل یہ ہے کہ پورا قرآن دفعۃً لوح محفوظ سے سمائے دنیا تک لیلۃ القدر میں نازل کر دیا گیا‘ جسے ’’لیلۂ مبارکہ‘‘ بھی کہا گیا ہے جوکہ رمضان المبارک کی ایک رات ہے. لہذا جب رمضان مبارک کی لیلۃ القدر یا لیلۂ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا ذکر ہوا تو لفظ انزال استعمال ہوا. قرآن مجید سمائے دنیا پر ایک ہی بار مکمل پور طور پر نازل ہونے کے بعد وہاں سے تدریجاً اور تھوڑا تھوڑا کرکے محمدٌ رسول اللہ پر نازل ہوا. لہذا حضور پر نزول کے لیے اکثر و بیشتر لفظ تنزیل استعمال ہوا ہے. 

لفظ تنزیل کے ضمن میں سورۃ النساء کی آیت ۱۳۶ نہایت اہم ہے. ارشاد ہوا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ 
’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے) اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اُس کتاب پر بھی جو اُس نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی اور اس کتاب پر بھی جو اُس نے پہلے نازل کی.‘‘

توراۃ تختیوں پر لکھی ہوئی ‘ مکتوب شکل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی. وہ چونکہ دفعۃً اور جُملۃً واحدۃً دے دی گئی‘ اس لیے اِس کے لیے لفظ اِنزال آیا ہے‘ جبکہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے بائیس تیئیس برس میں نازل ہوا. لہذا اسی کے ضمن میں لفظ ’’نَزَّلَ‘‘ استعمال ہوا. چنانچہ متذکرہ بالا آیت میں ’’تنزیل‘‘ اور ’’انزال‘‘ ایک دوسرے کے بالکل مقابلے میں آئے ہیں. گویایہاں ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ (چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں) کا اصول درست بیٹھتا ہے.