میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن کے بارے میں تین بنیادی اوراعتقادی چیزیں ہیں : اوّل‘ یہ اللہ کا کلام ہے . دوم‘ یہ محمدٌ رسول اللہ پر نازل ہوا. سوم‘یہ مِن وعَن کُل کاکُل محفوظ ہے. اس میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے نہ کوئی بیشی ہوئی ہے. نہ کمی ہو سکتی ہے نہ بیشی ہو سکتی ہے. نہ کوئی تحریف ہوئی ہے نہ کوئی تبدیلی. یہ گویا ہمارے عقیدے کا جزوِ لاینفک ہے. اس میں کچھ اشتباہ اہل تشیع نے پیدا کیا ہے‘ لیکن ان کی بات بھی میں کچھ یقین کے ساتھ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ ان کا یہ قول بھی سامنے آتا ہے کہ ’’ہم اس قرآن کو محفوظ مانتے ہیں‘‘.البتہ عوام میں جو چیزیں مشہور ہیں کہ قرآن سے فلاں آیات نکال دی گئیں‘ فلاں سورت حضرت علی ؓ کی مدح اور شان میں تھی‘ وہ اس میں سے نکال دی گئی وغیرہ‘ان کے بارے میں مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان میں سے عوام کالانعام کی باتیں ہیں یا ان کے اعتقادات میں شامل ہیں.

لیکن یہ کہ بہرحال اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ یہ قرآن حکیم محفوظ ہے اور کُل کا کُل مِن و عن ہمارے سامنے موجود ہے. اس کے لیے خود قرآن مجید سے جو گواہی ملتی ہے وہ سب سے زیادہ نمایاں ہو کر سورۃ القیامۃ میں آئی ہے. فرمایا: لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾ رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ ’’آپ اس قرآن کو یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں.اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے‘‘. آپؐ مشقت نہ جھیلیں‘ یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اسے آپؐ کے سینہ مبارک کے اندر جمع کر دیں گے اور اس کی ترتیب قائم کر دیں گے ‘اس کو پڑھوا دیں گے .جس ترتیب سے یہ نازل ہو رہا ہے اس کی زیادہ فکر نہ کیجئے. اصل ترتیب جس میں اس کا مرتب کیا جانا ہمارے پیش نظر ہے‘ جو ترتیب لوحِ محفوظ کی ہے اسی ترتیب سے ہم پڑھوا دیں گے. ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾ پھر اگر آپ کو کسی چیز میں ابہام محسوس ہو اور وضاحت کی ضرورت ہو تو اس کی توضیح اور تدوین بھی ہمارے ذمہ ہے.

یہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لی ہے. اگر ان آیات کو کوئی شخص قرآن مجید کی آیات مانتا ہے تو اس کو ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید پورے کا پورا جمع ہے‘ اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا. صراحت کے ساتھ یہ بات سورۃ الحجر کی آیت ۹ میں مذکور ہے.فرمایا: اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ ’’ہم نے ہی اس ’’الذکر‘‘ کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘. یہ گویا ہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گارنٹی ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. اس حقیقت کو علامہ اقبال نے خوبصورت شعر میں بیان کیا ہے: ؏

حرفِ اُو را ریب نے ‘ تبدیل نے
آیہ اش شرمندئہ تاویل نے 

’’اس کے الفاظ میں نہ کسی شک و شبہ کا شائبہ ہے نہ رد ّ و بدل کی گنجائش. اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں.‘‘
اس شعر میں تین اعتبارات سے نفی کی گئی ہے: (۱) قرآن کے حروف میں یعنی اس کے متن میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. یہ مِن وعَن محفوظ ہے. (۲) اس میں کہیں کوئی تحریف ہوئی ہو ‘کہیں تبدیلی کی گئی ہو‘قطعاً ایسا نہیں.(۳) کیا اس کی آیات کی الٹ سلٹ تاویل بھی کی جا سکتی ہے؟ نہیں! یہ آخری بات بظاہر بہت بڑا دعویٰ معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ تاویل کے اعتبار سے قرآن مجید کے معنی میں لوگوں نے تحریف کی‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اگر کہیں معنوی تحریف کی کوشش بھی ہوئی ہے تو وہ قطعاً درجۂ استناد کو نہیں پہنچ سکی‘ اسے کبھی بھی استقلال اور دوام حاصل نہیں ہو سکا‘ قرآن نے خود اس کو ردّ کر دیا. جس طرح دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے ‘ایسی تاویلات بھی اُمت کی تاریخ کے دوران کہیں بھی جڑ نہیں پکڑ سکی ہیں اور اسی طرح نکال دی گئی ہیں. اس بات کی سند بھی قرآن میں موجود ہے. سورۂ حٰم السجدۃ کی آیت ۴۲ میں ہے: 
لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ ﴿۴۲﴾ ’’باطل اس (قرآن) پر حملہ آور نہیں ہو سکتا‘ نہ سامنے سے نہ پیچھے سے‘ یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے‘‘. 

یہ بات سرے سے خارج از امکان ہے کہ اس قرآن میں کوئی تحریف ہو جائے‘ اس کا کوئی حصہ نکال دیا جائے‘ اس میں کوئی غیر قرآن شامل کردیا جائے سورۃ الحاقۃ کی یہ آیات ملاحظہ کیجئے جہاں گویا اس امکان کی نفی میں مبالغے کا انداز ہے : 

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫ۖ۴۶﴾فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ ﴿۴۷﴾ 

’’(کوئی اور تو اس میں اضافہ کیا کرے گا) اگر یہ (ہمارے نبی محمد  ) خود بھی (بفرضِ محال) اپنی طرف سے کچھ گھڑ کر اس میں شامل کر دیں تو ہم انہیں داہنے ہاتھ سے پکڑیں گے اور ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے .پھر تم میں سے کوئی (بڑے سے بڑا محافظ ان کا حامی و مددگار) نہیں ہو گا کہ جو انہیں ہماری پکڑ 
سے بچا سکے.‘‘

یہاں تو محمدٌرسول اللہ کے لیے بھی اس شدت کے ساتھ نفی کر دی گئی. کفار و مشرکین کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ آپ اس قرآن میں کچھ نرمی اور لچک دکھائیں‘ یہ تو بہت rigid ہے‘ بہت ہی uncompromising ہے‘ بہرحال دنیا میں معاملات ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ (give and take) سے طے ہوتے ہیں‘ لہذا کچھ آپ نرم پڑیں کچھ ہم نرم پڑتے ہیں. اس کے بارے میں فرمایا: وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾ (القلم) ’’وہ تو چاہتے ہیں کہ آپ کچھ ڈھیلے ہو جائیں تو یہ بھی ڈھیلے ہو جائیں گے‘‘. اور سورۂ یونس میں ارشاد ہوا :

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵

’’جب انہیں ہماری آیاتِ بیّنات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے بجائے کوئی اور قرآن لایئے یا اس میں کچھ ترمیم کیجئے. (اے نبی! ان سے) کہہ دیجیے میرے لیے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے خیال اور ارادے سے اس کے اندر کچھ تبدیلی کر سکوں. میں تو خود پابند ہوں اس کا جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے. اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے.‘‘
یہ ہے قرآن مجید کی شان کہ یہ لفظا ً‘ معنا ً ‘ متناً کلی طور پر محفوظ ہے.