اگلی بحث قرآن حکیم کے اسماء وصفات کی ہے. علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں قرآن حکیم کے اسماء و صفات قرآن حکیم ہی سے لے کر پچپن (۵۵) ناموں کی فہرست مرتب کی ہے. میں نے جب اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ بھی کامل نہیں ہے ‘مثلاً لفظ ’’برہان‘‘ ان کی فہرست میں شامل نہیں ہے. درحقیقت قرآن مجید کی صفات‘ اس کی شانوں اور اس کی تاثیر کے لیے مختلف الفاظ کو جمع کیا جائے تو ۵۵ ہی نہیں اس سے زیادہ الفاظ بن جائیں گے‘ لیکن میں نے انہیں دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے. ایک تووہ الفاظ ہیں جو مفرد کی حیثیت سے اور معرفہ کی شکل میں قرآن مجید میں قرآن کے لیے وارد ہوئے ہیں‘جبکہ کچھ صفات ہیں جو موصوف کے ساتھ آ رہی ہیں.مثلاً ’’قرآن مجید‘‘ میں ’’مجید‘‘ قرآن کا نام نہیں ہے‘ درحقیقت صفت ہے. اسی طرح ’’القرآن المجید‘‘ میں اگرچہ ’’الف لام‘‘ کے ساتھ ’’المجید‘‘ آتا ہے‘ لیکن یہ چونکہ موصوف کے ساتھ مل کر آیا ہے لہذا یہ بھی صفت ہے.
قرآن مجید کے لیے جو الفاظ بطور اسم آئے ہیں‘ ان میں سے اکثر و بیشتر وہ ہیں جن کے ساتھ لام تعریف لگا ہوا ہے. قرآن کے لیے اہم ترین نام جو اس کا امتیازی اور اختصاصی (The exclusive) نام ہے ’’القرآن‘‘ ہے. (میں بعد میں اس کی وضاحت کروں گا). اس کے بعد کثرت سے استعمال ہونے والا نام ’’الکتاب‘‘ ہے. قرآن کی اصل حقیقت پر روشنی ڈالنے والا اہم ترین نام ’’الذکر‘‘ ہے.قرآن مجید کی افادیت کے لیے سب سے زیادہ جامع نام ’’الہدیٰ‘‘ ہے. قرآن مجید کی نوعیت اور حیثیت کے اعتبار سے اہم ترین نام ’’النور‘‘ ہے.قرآن مجید کی ایک انتہائی اہم شان جو ایک لفظ کے طور پر آئی ہے ’’الفرقان‘‘ ہے. یعنی (حق و باطل میں) فرق کر دینے والی شے‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جدا کر دینے والی شے. قرآن کا ایک نام ’’الوحی‘‘ بھی آیا ہے: قُلۡ اِنَّمَاۤ اُنۡذِرُکُمۡ بِالۡوَحۡیِ ۫(الانبیاء:۴۵) . اسی طرح ’’کلام اللہ‘‘ کا لفظ بھی خود قرآن میں آیا ہے : حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ (التوبۃ:۶) چونکہ یہاں کلام مضاف واقع ہوا ہے‘ لہذا یہ بھی معرفہ بن گیا. میرے نزدیک جنہیں ہم قرآن کے نام قرارد دیں‘ وہ تو یہی بنتے ہیں. اگرچہ‘جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ جو لفظ بھی قرآن کے لیے صفت کے طور پر یااس کی شان کو بیان کرنے کے لیے قرآن میں آ گیا ہے علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کو فہرست میں شامل کر کے ۵۵ نام گنوائے ہیں‘ لیکن یہ فہرست بھی مکمل نہیں.
قرآن کریم کی مختلف شانوں اور صفات کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں:
(۱) کَرِیۡمٌ : اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾ (الواقعۃ) (۲) الۡحَکِیۡمِ : یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ (یٰسٓ) (۳) الۡعَظِیۡمَ : وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۷﴾ (الحجر) (۴) مَّجِیۡدٌ اور الۡمَجِیۡدِ: بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾ (البروج) اور قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ (قٓ) (۵) الۡمُبِیۡنِ: حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ (الزخرف) (۶) رَحۡمَۃٌ:ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ (یونس) (۷) عَلِیٌّ : وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ؕ﴿۴﴾ (الزخرف) (۸) بَصَآئِرُ : قَدۡ جَآءَکُمۡ بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ (الانعام:۱۰۴) (۹‘۱۰) بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا: (حٰم السجدۃ:۴) [اگرچہ یہ الفاظ انبیاء کے لیے آتے ہیں لیکن یہاں خود قرآن کے لیے بھی آئے ہیں. قرآن اپنی ذات میں فی نفسہٖ بشیر بھی ہے‘ نذیر بھی ہے] (۱۱) بُشۡرٰی: وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ (النحل:۸۹‘۱۰۲) (۱۲) عَزِیۡزٌ : وَ اِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیۡزٌ ﴿ۙ۴۱﴾ (حٰم السجدۃ) (۱۳) بَلٰغٌ : ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ (ابراھیم:۵۲) (۱۴) بَیَانٌ: ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ (آل عمران:۱۳۸) (۱۵) مَّوۡعِظَۃٌ (۱۶) شِفَآءٌ : قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ (یونس:۵۷) (۱۷) اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ: نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ (یوسف:۳) (۱۸) اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ (۱۹) مُّتَشَابِہ (۲۰) مَّثَانِیَ: اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ (الزمر:۲۳) (۲۱) مُبٰرَکٌ: کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ (ص:۲۹) (۲۲) مُصَدِّقٌ (۲۳) مُہَیۡمِنٌ: مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ (المائدۃ:۴۸) (۲۴) قَیِّم: قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ (الکہف:۲)
یہ مختلف الفاظ ہیں جو قرآن حکیم کی مختلف شانوں کے لیے آئے ہیں. جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں ‘ جو اس کی مختلف شانوں کو ظاہر کرتے ہیں‘ اسی طرح حضورﷺ کے ناموں کی فہرست بھی آپ نے پڑھی ہو گی. آپﷺ کی مختلف شانیں ہیں ‘ اس کے اعتبار سے آپ بشیر بھی ہیں‘ نذیر بھی ہیں‘ ہادی بھی ہیں‘ معلم بھی ہیں. قرآن مجید کے بھی مختلف اسماء و صفات ہیں.