اب میں اگلی بحث پر آ رہا ہوں کہ اس کا اسلوب کلام کیا ہے! قرآن مجید نے شد و مد کے ساتھ جس بات کی نفی کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ شعر نہیں ہے. وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ (یٰسٓ :۶۹’’ہم نے اپنے اس رسول کو شعر سکھایا ہی نہیں‘ نہ ان کے یہ شایانِ شان ہے‘‘. شعراء کے بارے میں سورۃ الشعراء میں آیا ہے: 

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ ﴿۲۲۴﴾ؕاَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ ﴿۲۲۵﴾ۙوَ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲۲۶﴾ۙ 
’’اور شاعروں کی پیروی تو وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہوں. کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں گھومتے رہتے ہیں (ہر میدان میں سرگرداں رہتے ہیں) اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو نہیں کرتے.‘‘

اگلی آیت میں اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ... کے الفاظ کے ساتھ استثناء بھی آیا ہے‘ اور استثناء قاعدہ کلیہ کی توثیق کرتا ہے (Exception proves the rule) چنانچہ قرآن مجید کے اعتبار سے شعر گوئی کوئی اچھی شے نہیں‘ کوئی ایسی محمود صفت نہیں ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو عطا فرماتا. بلکہ حضور اکرم کا معاملہ تو یہ تھا کہ آپؐ کبھی کوئی شعر پڑھتے بھی تھے تو غلطی ہو جاتی تھی. اس لیے کہ نبی اکرم پر سے اللہ تعالیٰ شاعری کی تہمت ہٹانا چاہتا تھا‘ لہذا آپ کے اندر شاعری کا وصف ہی پیدا نہیں کیا گیا . سیرت کا ایک دلچسپ واقعہ آتا ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ ایک شعر پڑھا اور اس میں غلطی ہوئی. اس پر حضرت ابوبکر علیہ السلام مسکرائے اور عرض کی : ’’اَشْھَدُ اَنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناآپ اللہ کے رسول ہیں‘‘.

اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے : وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ . تو واقعتا آپ کو شعر سے یعنی شعر کے وزن اور اس کی بحر وغیرہ سے مناسبت نہیں تھی. باقی جہاں تک شعرکے مفہوم کا اور اعلیٰ مضامین کا تعلق ہے تو خود حضورکا فرمان ہے کہ : اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا وَاِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً یعنی بہت سے بیان‘ بہت سے خطبے اور تقریریں جادواثر ہوتے ہیں اور بہت سے اشعار کے اندر حکمت کے خزانے ہوتے ہیں. بعض شعراء کے اشعار حضور نے خود پڑھے بھی ہیں اور ان کی تحسین فرمائی ہے‘ لیکن قرآن بہرحال شعر نہیں ہے. 

البتہ ایک بات کہنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ قدیم زمانے کی شاعری جس میں بحر‘ وزن اور ردیف و قافیہ کی پابندیاں سختی کے ساتھ ہوتی تھیں‘ اس کے اعتبار سے یقیناقرآن شعر نہیں ہے‘ لیکن ایک شاعری جس کا رواج عصر حاضر میں ہوا ہے اور اس کے لیے غالباً قرآن ہی کے اسلوب کو چرایا گیا ہے ‘جسے آپ ’’آزاد نظم‘‘ (Blank Verse) کہتے ہیں ‘اس کے اندر جو صفات اور خصوصیات آج کل ہوتی ہیں اُن کا منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. اس لیے کہ اس میں ایک ردھم (Rythm) بھی ہوتاہے‘ اس میں فواصل بھی ہیں‘ قوافی کی طرز پر صوتی آہنگ بھی ہے‘ لیکن وہ جو معروف شاعری تھی اس کے اعتبار سے قرآن بڑی تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ قرآن شعر نہیں ہے. 

قرآن کے اسلوب کے ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ عام معانی میں قرآن کتاب بھی نہیں ہے . میں یہاں اقبال کا مصرعہ quote کر رہا ہوں‘ اگرچہ اس کے وہ معانی نہیں ؏ عایں کتابے نیست چیزے دیگر است! 

آج ہمارا کتاب کا تصور یہ ہے کہ اس کے مختلف ابواب ہوتے ہیں. آپ کسی کتاب یا تصنیف میں ایک موضوع کو ایک باب (Chapter) کی شکل دیتے ہیں. ایک باب میں ایک بات مکمل ہو جانی چاہئے. اگلے باب میں بات آگے چلے گی‘ کوئی پچھلی بات نہیں دہرائی جائے گی. تیسرے باب میں بات اور آگے چلے گی. پھر ایک کتاب مضمون کے اعتبار سے ایک وحدت بنے گی اور اس کے اندر موضوعات اورعنوانات کے حوالے سے ابواب (Chapters) تقسیم ہو جائیں گے. گویا ہمارے ہاں معروف معنی میں کتاب کا اطلاق جس چیز پر کیا جاتا ہے‘ اس معنی میں قرآن کتاب نہیں ہے. البتہ یہ ’’الکتاب‘‘ ہے بمعنی لکھی ہوئی شے. اللہ تعالیٰ نے اسے کتاب قرار دیا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ کثرت سے یہی لفظ ’’کتاب‘‘ ہی قرآن میں آیا ہے.

یہ لفظ ساڑھے تین سو(۳۵۰) جگہ آیا ہے. قرآن اور قرآنًا تقریباً ۷۰ مقامات پر آیا ہے. لیکن ’’قرآن‘‘ exclusive آیا ہے ‘جبکہ کتاب کا لفظ توراۃ‘ انجیل ‘ علم خداوندی اور تقدیر کے لیے بھی آیا ہے اور قرآن مجید کے حصّوں اور احکام کے لیے بھی آیا ہے. بہرحال کتاب اس معنی میں تو ہے. معاذ اللہ‘ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کتاب نہیں ہے‘ لیکن جس معنی میں ہم لفظ کتاب بولتے ہیں اس معنی میں قرآن کتاب نہیں ہے. 

تیسری بات یہ کہ یہ مجموعہ ٔ مقالات (Collection of Essays) بھی نہیں ہے. اس لیے کہ ہر مقالہ اپنی جگہ پر خود مکتفی اور ایک مکمل شے ہوتا ہے. لیکن قرآن مجید کے بارے میں ہم یہ بات نہیں کہہ سکتے. توپھر یہ ہے کیا؟ پہلی بات تو یہ نوٹ کیجیے کہ اس کا اسلوب خطبے کا ہے. عرب میں دو ہی چیزیں زیادہ معروف تھیں‘ خطابت یا شاعری. شعراء ان کے ہاں بڑے محبوب تھے. شاعری کا ان کو بڑا ذوق تھااور وہ شعراء کی بڑی قدر کرتے تھے. ان کے ہاں قصیدہ گوئی کے مقابلے ہوتے تھے. پھر ہر سال جو سب سے بڑا شاعر شمار ہوتا تھا اس کی عظمت کو تسلیم کرنے کی علامت کے طور پر سب شاعر اس کے سامنے باقاعدہ سجدہ کرتے تھے. پھر اس کا قصیدہ بیت اللہ پر لٹکا دیا جاتا تھا. یہی قصائد ’’سبعۃ معلّقۃ‘‘ کے نام سے معروف ہیں. چنانچہ عرب یا تو شعروں سے واقف تھے یا خطبوں سے .تو قرآن مجید اُس دور کی دو سب سے زیادہ معروف اصناف (شاعری اور خطبہ) میں خطبے کے اسلوب پر ہے. اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم مجموعۂ خطباتِ الٰہیہ (A Collection of Divine Orations) ہے‘ جس میں ہر سورت ایک خطبے کی مانند ہے.

خطبے کے اعتبار سے چند باتیں نوٹ کر لیں. خطبے میں مخاطب اور خطیب کے درمیان ایک ذہنی رشتہ ہوتا ہے . مخاطب کو معلوم ہوتا ہے کہ میرے سامنے کون لوگ بیٹھے ہیں‘ ان کی فکر کیا ہے‘ ان کی سوچ کیا ہے‘ ان کے عقائد کیا ہیں‘ ان کے نظریات کیا ہیں. وہ ان کا حوالہ دیے بغیر اپنی گفتگو کے اندر اُن پر تنقید بھی کرے گا‘ ان کی تصحیح بھی کرے گا‘ لیکن کوئی تمہیدی کلمات نہیں ہوں گے کہ اب میں تمہاری فلاں غلطی کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں‘ میں اب تمہارے اس خیال کی نفی کرنا چاہتا ہوں. یہ انداز نہیں ہو گا بلکہ وہ روانی کے ساتھ آگے چلے گا. مخاطِب اور مخاطَب کے مابین ایک ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے‘ وہ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں ‘اور خاص طور پر مخاطبین کے فہم‘ اُن کی سمجھ‘ اُن کے عقائد‘ اُن کے نظریات سے خطیب واقف ہوتا ہے.

یہ در حقیقت خطبے کی شان ہے. یہی وجہ ہے کہ اس میں تحویل خطاب ہوتی ہے اور بغیر وارننگ کے ہوتی ہے. بسا اوقات غائب کو حاضر فرض کر کے اس سے خطاب کیا جاتا ہے. چنانچہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک خطیب مسجد میں خطبہ دے رہا ہے اور وہ مخاطب کر رہا ہے صدرمملکت کو‘حالانکہ وہ وہاں موجود نہیں ہوتے. اسی طرح جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں بسا اوقات ان سے صیغہ غائب میں گفتگو شروع ہو جائے گی ‘اور یہ بھی بلاغت کا انداز ہے. کبھی وہ ایک طرف بات کر رہا ہے‘ کبھی دوسری طرف کر رہا ہے‘ کبھی کسی غائب سے بات کر رہا ہے اور خطابت کا وہی انداز ہو گا اگرچہ وہ غائب وہاں موجود نہیں ہے. اس کو تحویل خطاب کہتے ہیں. قرآن مجید پر غور کرنے کے ضمن میں اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے. اگر خطاب کا رُخ معین ہو کہ یہ بات کس سے کہی جا رہی ہے‘ مخاطب کون ہے‘تو اس بات کا اصل مفہوم اجاگر ہو کر سامنے آتا ہے ‘ورنہ اگر مخاطب کا تعین نہ ہو تو بہت سے بڑے بڑے مغالطے جنم لے سکتے ہیں. 

خطبے اور مقالے میں ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ مقالے میں عام طور پر صرف عقل سے اپیل کی جاتی ہے. اس میں منطق اور عقلی دلائل ہوتے ہیں‘ جبکہ خطبے میں عقل کے ساتھ ساتھ جذبات سے بھی اپیل ہوتی ہے .گویا کہ انسان کے اندر جھانک کر بات کی جاتی ہے. لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اپنے اندر جھانکو. 

وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور خود تمہارے اندر بھی (نشانیاں ہیں) تو کیا تم کو سوجھتا نہیں ہے؟‘‘ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ (ابراھیم:۱۰’’(ذرا غور کرو) کیا اللہ کے بارے میں شک کرتے ہوجوزمین و آسمان کا بنانے والا ہے؟‘‘یہ انداز بہرحال کسی تحریر یا مقالے میں نہیں ہو گا‘ یہ خطبے کا انداز ہے.

ایک اور بات جو خطبے کے اعتبار سے اس کے خصائص میں سے ہے وہ یہ کہ ایک مؤثر خطبے کے شروع میں بہت جامع گفتگو ہو تی ہے. کامیاب خطبہ وہی ہو گا جس کا آغاز ایسا ہو کہ مقرر اور خطیب اپنے مخاطبین اور سامعین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے. اور پھر اگرچہ خطبے کے دوران مضمون دائیں بائیں پھیلے گا‘ اِدھر جائے گا‘ اُدھر جائے گا‘ لیکن آخر میں آ کر وہ پھر کسی مضمون کے اوپر مرتکز ہو جائے گا. یہ اگر نہیں ہے تو گویا کہ وقت ضائع ہو گیا. ہمارے ہاں بڑے بڑے خطیب پیدا ہوئے ہیں.

خاص طور پر مجلسِ احرار نے بڑے عوامی خطیب پیدا کیے‘ جن میں سے عطاء اللہ شاہ بخاریؒبہت بڑے خطیب تھے. ان کی تقریر کا یہ عالَم ہوتا تھا کہ گفتگو چار چار گھنٹے ‘پانچ پانچ گھنٹے چل رہی ہے. اس میں کبھی مشرق کی ‘کبھی مغرب کی ‘کبھی شمال کی اورکبھی جنوب کی بات آ جاتی. کبھی ہنسانے کا اور کبھی رلانے کا انداز ہوتا‘ کہیں لطیفہ گوئی بھی ہو جاتی.لیکن اوّل و آخر بات بالکل واضح ہوتی. خوب گھما پھرا کر بھی مخاطب کو کسی ایک بات پر لے آنا کہ اٹھے تو کوئی ایک بات ‘کوئی ایک پیغام لے کر اٹھے‘ کوئی ایک جذبہ اس کے اندر جاگ چکا ہو‘ ایک پیغام اس تک پہنچ چکا ہو‘ یہ خطبے کے اوصاف ہیں. 

آپ کو معلوم ہے خواہ غزل ہو یا قصیدہ‘ شاعری میں مطلع اور مقطع دونوں کی بڑی اہمیت ہے. مطلع جاندار ہے تو آپ پوری غزل پڑھیں گے اور اگر مطلع ہی پھسپھسا ہے تو آگے آپ کیا پڑھیں گے!اسی طرح مقطع بھی جاندار ہونا چاہئے. اسی لیے مقطع اور مطلع کے الفاظ علیحدہ سے وضع کیے گئے ہیں. خطبات کے اندر بھی ابتدا اور اختتام پر نہایت جامع اور اہم مضمون ہوتا ہے. قرآن مجید کی سورتوں کی ابتدا اور اختتام بھی نہایت جامع مضامین پر ہوتی ہے. چنانچہ قرآن مجید کی سورتوں کی ابتدائی آیات اور اختتامی آیات کی فضیلت پر بہت سی احادیث ملتی ہیں. سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات اور اختتامی آیات‘ اسی طرح سورۃ آل عمران کی شروع کی آیات اورپھر اختتامی آیات نہایت جامع ہیں. یہ اندازاکثر و بیشتر سورتوں میں ملے گا. یہ ہے اصل میں بالعموم قرآن مجید کا اسلوب‘جو ظاہر بات ہے شاعری کا نہیں ہے. عام معانی میں وہ کتاب نہیں ‘مجموعۂ مقالات نہیں. اس کا اسلوب اگر ہے تو وہ خطبے سے ملتا ہے. یہ گویا خطباتِ الہٰیہ ہیں جن کا مجموعہ ہے قرآن!