آیات اور سورتوں کی تقسیم

بہت سی چیزوں سے مل کر کوئی شے مرکب بنتی ہے. قرآن کلام مرکب ہے .اس کی تقسیم سورتوں اور آیات میں ہے.پھر اس میں احزاب اور گروپ ہیں. عام تصورِ کتاب تو یہ ہے کہ اس کے ابواب ہوتے ہیں ‘لیکن قرآن حکیم پر ان اصطلاحات کا اطلاق نہیں ہوتا. قرآن حکیم نے اپنی اصطلاحات خود وضع کی ہیں .ان اصطلاحات کی دنیا میں موجود کسی بھی کتاب کی اصطلاحات سے کوئی مشابہت نہیں ہے. چنانچہ علامہ جاحظ نے ایک بڑا خوبصورت عنوان قائم کیاہے. وہ کہتے ہیں کہ عرب اس سے تو واقف تھے کہ ان کے بڑے بڑے شعراء کے دیوان ہوتے تھے. سارا کلام کتابی شکل میں جمع ہو گیا تو وہ دیوان کہلایا. لہذا کسی بھی درجے میں اگر مثال اور تشبیہہ سے سمجھنا چاہیں تو دیوان کے مقابلے میں لفظ قرآن ہے. پھردیوان بہت سے قصائد کا مجموعہ ہوتا تھا .ہمارے ہاں بھی کسی شاعر کا دیوان ہو گا تو اس میں قصائد ہوں گے‘ غزلیں ہوں گی‘ نظمیں ہوں گی.قرآن حکیم میں اس سطح پر جو لفظ ہے وہ سورت ہے.اللہ تعالیٰ کایہ کلام سورتوں پر مشتمل ہے. اگر کوئی نثر کی کتاب ہے تو وہ جملوں پر مشتمل ہو گی اور اگر نظم کی ہے تو وہ اشعار پر مشتمل ہو گی. اس کی جگہ قرآن مجید کی اصطلاح آیت ہے. شاعری میں اشعار کے خاتمے پر ردیف کے ساتھ ساتھ ایک لفظ قافیہ کہلاتا ہے اور غزل کے تمام اشعار ہم قافیہ ہوتے ہیں. قرآن مجید پربھی ہم عام طور پر اس لفظ کا اطلاق کر دیتے ہیں‘اس لیے کہ قرآن مجید کی آیات میں بھی آخری الفاظ کے اندر صوتی آہنگ ہے.یہاں انہیں فواصل کہا جاتا ہے‘قافیہ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا کہ کسی بھی درجے میں شعر کے ساتھ کوئی مشابہت نہ پیدا ہو جائے.

قرآن مجید کا سب سے چھوٹا یونٹ آیت ہے. یعنی قرآن مجید کی ابتدائی اکائی کے لیے لفظ آیت اخذ کیا گیا ہے. آیت کے معنی نشانی کے ہیں. قرآنی آیت گویا اللہ کے علم و حکمت کی نشانی ہے.آیت کا لفظ قرآن مجید میں بہت سے معانی میں استعمال ہوا ہے. مثلاًآیاتِ آفاقی اور آیاتِ انفسی. ا س کائنات میں ہرطرف اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں. کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت‘ اس کے علم اور اس کی حکمت کی گواہی دے رہی ہے.گویا ہر شے اللہ کی نشانی ہے. پھر کچھ نشانیاں ہمارے اندر ہیں.چنانچہ فرمایا: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے . اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی. کیا تم کو سوجھتا نہیں؟‘‘ مزید فرمایا: سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (حٰم السجدۃ:۵۳)’’عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی‘ یہاں تک کہ اُن پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘. انگریزی میں آیت کے لیے ہم لفظ verse بول دیتے ہیں‘ مگر verse توشعر کو کہتے ہیں جبکہ قرآن کی آیات نہ تو شعر ہیں‘ نہ مصرعے ہیں‘ نہ جملے ہیں. پس بعینہٖ لفظ آیت ہی کو عام کرنا چاہیے. بہرحال کچھ آیاتِ آفاقی ہیں‘ یعنی اللہ کی نشانیاں ‘ کچھ آیاتِ انفسی ہیں‘ وہ بھی اللہ کی نشانیاں ہیں اور آیاتِ قرآنیہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور علم کامل کی نشانیاں ہیں. یہ لفظ قرآن کی اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے. 

جان لینا چاہیے کہ آیات کا تعین کسی گرامر ‘بیان یانحو کے اصول پر نہیں ہے‘ اس میں کوئی اجتہاد داخل نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے ایک اصطلاح ’’توقیفی‘‘ استعمال ہوتی ہے‘یعنی یہ رسول اللہکے بتانے پر موقوف ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیات بہت طویل بھی ہیں. ایک آیت آیۃ الکرسی ہے جس میں مکمل دس جملے ہیں ‘لیکن بعض آیات حروفِ مقطعات پر بھی مشتمل ہیں. حٰمٓ ۚ﴿۱ایک آیت ہے‘ حالانکہ اس کا کوئی مفہوم معلوم نہیں ہے‘ عام زبان کے اعتبار سے اس کے معانی معین نہیں کیے جا سکتے. یہ تو حروف تہجی ہیں.اس کو مرکب کلام بھی نہیں کہہ سکتے ‘کیونکہ اس کو علیحدہ علیحدہ پڑھا جاتا ہے. اس لیے یہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں. حٰمٓ ۚ﴿۱﴾عٓسٓقٓ ﴿۲﴾ ان کو جمع نہیں کر سکتے‘ یہ توڑ توڑ کر علیحدہ علیحدہ پڑھے جائیں گے. اسی طرح ’’الٓـمّٓ ‘‘ کو ’’اَلَمْ‘‘ نہیں پڑھا جا سکتا. لیکن یہ بھی آیت ہے. اس ضمن میں ایک بات یاد رکھئے کہ جہاں حروفِ مقطعات میں سے ایک ایک حرف آیا ہے جیسے صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ ‘ نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ ‘ قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ یہاں ایک حرف پر آیت نہیں بنی‘ لیکن دو دو حروف پر آیتیں بنی ہیں . ’’حٰمٓ ‘‘ قرآن میں سات جگہ آیا ہے اور یہ مکمل آیت ہے. الٓـمّٓ آیت ہے. البتہ ’’الٓرٰ‘‘ تین حروف ہیں اور وہ آیت نہیں ہے.

معلوم ہوا کہ اس کی بنیاد کسی اصول ‘ قاعدے یا اجتہاد پر نہیں ہے‘ بلکہ یہ امور کلیتہً توقیفی ہیں کہ حضور کے بتانے سے معلوم ہوئے ہیں. البتہ پھر حضور سے چونکہ مختلف روایات ہیں‘ اس لیے اس پہلو سے کہیں کہیں فرق واقع ہوا ہے. چنانچہ آیاتِ قرآنیہ کی تعداد متفق علیہ نہیں ہے. اس پر تو اتفاق ہے کہ آیات کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے‘ لیکن بعض کے نزدیک کم و بیش ۶۲۱۶‘ بعض کے نزدیک ۶۲۳۶ اور بعض کے نزدیک ۶۶۶۶ ہے. اس کے مختلف اسباب ہیں.

بعض سورتوں کے اندر آیات کے تعین میں بھی فرق ہے. لیکن یہ سب کسی کا اپناا جتہاد نہیں ہے‘ بلکہ سب کے سب اعداد و شمار حضور سے نقل ہونے کی بنیاد پر ہیں. ایک فرق یہ بھی ہے کہ آیت بسم اللہ قرآن حکیم میں ۱۱۳ مرتبہ سورتوں کے شروع میں آتی ہے (کیونکہ سورتوں کی کل تعداد۱۱۴ ہے اور ان میں سے صرف ایک سورت سورۃ التوبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں آتی).اگر اس کو ہر مرتبہ شمار کیا جائے تو ۱۱۳ تعداد بڑھ جائے گی‘ ہر مرتبہ شمار نہ کیا جائے تو ۱۱۳ تعداد کم ہو جائے گی. اس اعتبار سے آیاتِ قرآنیہ کی تعداد متفق علیہ نہیں ہے ‘بلکہ اس میں اختلاف ہے. جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ حروف مقطعات پر بھی آیت ہے‘ مرکباتِ ناقصہ پر بھی آیت ہے ‘جیسے وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ کہیں آیت مکمل جملہ بھی ہے ‘اور ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں دس دس جملے ہیں.

قرآن حکیم کی آیتیں جمع ہوتی ہیں تو سورتیں وجود میں آتی ہیں.سورت کا لفظ ’’سُور‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ سورۃ الحدید میں فصیل کے معنی میں آیا ہے. پچھلے زمانے میں ہر شہر کے باہر ‘گرداگرد ایک فصیل ہوتی تھی جو شہر کا احاطہ کر لیتی تھی ‘ شہر کی حفاظت کا کام بھی دیتی تھی اور حد بندی بھی کرتی تھی.آیات کو جب جمع کیا گیا تو اس سے جو فصیلیں وجود میں آئیں وہ سورتیں ہیں .فصل علیحدہ کرنے والی شے کو کہتے ہیں. تو گویا ایک سورۃ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہو رہی ہے. فصیل علیحدگی کی بنیاد ہے. فصیل کے لیے ’’سُور‘‘ کا لفظ مستعمل ہے‘ پھراس سے سورت بنا ہے. البتہ یہ سورتیں ’’ابواب‘‘ نہیں ہیں‘بلکہ جس طرح آیت کے لیے لفظ verse مناسب نہیں اسی طرح سورت کے لیے لفظ’’باب‘‘ یا chapter درست نہیں .

اب جان لیجیے کہ جیسے آیات کا معاملہ ہے ایسے ہی سورتوں کا بھی ہے .چنانچہ سورتیں بہت چھوٹی بھی ہیں. قرآن مجید کی تین سورتیں صرف تین تین آیات پر مشتمل ہیں: سورۃ العصر‘سورۃ النصر اور سورۃالکوثر. جبکہ تین سورتیں ۲۰۰ سے زائد آیات پر مشتمل ہیں. سورۃ البقرۃ کی ۲۸۵ یا ۲۸۶ آیات ہیں.(سورۃ البقرۃکی آیات کی تعداد کے اعتبار سے رائے میں فرق ہے). سب سے زیادہ آیات سورۃ البقرۃ میں ہیں. پھر سورۃ الشعراء میں ۲۲۷اور سورۃ الاعراف میں ۲۰۶ آیات ہیں.محققین و علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آیات کی طرح سورتوں کا تعین بھی حضور نے خود فرمایا. اگرچہ ایک ضعیف سا قول ملتا ہے کہ شاید یہ کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کسی اجتہاد سے کیا ہو‘ مگر یہ مختار قول نہیں ہے‘ ضعیف ہے. اجماع اسی پر ہے کہ آیتوں کی تعیین بھی توقیفی اور سورتوں کی تعیین بھی توقیفی ہے.