ترتیب ِنزولی اور ترتیب ِمصحف کا اختلاف

قرآن حکیم کی ترتیب کے ضمن میں پہلی بات جو بالکل متفق علیہ اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے وہ یہ ہے کہ ترتیب ِنزولی بالکل مختلف ہے اور ترتیب ِمصحف بالکل مختلف ہے. اکثر و بیشتر جو سورتیں ابتدا میں نازل ہوئیں وہ آخر میں درج ہیں اور ہجرت کے بعد جوسورتیں نازل ہوئی ہیں (البقرۃ ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدۃ)ان کو شروع میں رکھاگیاہے. تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ترتیب ِنزولی اور ترتیب مصحف مختلف ہے.

جہاں تک ترتیب نزولی کا تعلق ہے‘ اس سے ہر طالب علم کو دلچسپی ہوتی ہے جو قرآن مجید پر غور کرنا چاہتا ہے. اس لیے کہ ترتیبِ نزولی کے حوالے سے قرآن حکیم کے معانی اور مفاہیم کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے. ایک تو یہ کہ ایک خاص پس منظر کے ساتھ سورتیں جڑتی ہوئی چلی جاتی ہیں. ابتدا میں کیا حالات تھے جن میں یہ سورتیں نازل ہوئیں‘ پھر حالات نے کیا پلٹا کھایا تو اگلی سورتیں نازل ہوئیں. چنانچہ ترتیبِ نزولی کے حوالے سے قرآن حکیم کو مرتب کیا جائے تو ایک اعتبار سے وہ سیرت النبیؐ کی کتاب بن جائے گی. اس لیے کہ آغاز وحی کے بعد سے لے کر آپؐ کے انتقال تک وہ زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا. دوسرے یہ کہ اس پورے زمانے کے ساتھ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کا جو مجموعی ربط ہے ترتیب نزولی کی مدد سے اسے سمجھنے اور غور و فکر کرنے میں مدد ملتی ہے.

پس قرآن مجید کے ہر طالب علم کو اس سے دلچسپی ہونا سمجھ میں آتا ہے. چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ انہوں نے ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن حکیم کو مرتب کیا تھا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات بہت شدومد کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے بھی اس کوترتیب نزولی کے اعتبار سے مرتب کیا تھا ‘اور عوام کی سطح پریہ مشہور ہے کہ اہل تشیع اسی کو اصل اور مستند قرآن مانتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ مصحف ان کے بارہویں امام کے پاس ہے ‘ جو ایک غار میں روپوش ہیں. قیامت کے قریب جب وہ ظاہر ہوں گے تب وہ اپنا یہ مصحف یعنی ’’اصل قرآن‘‘ لے کر آئیں گے. گویا اہل تشیع یہ قرآن اُس وقت تک کے لیے ہی قبول کرتے ہیں. عام طور پر ان کی طرف یہی بات منسوب ہے ‘لیکن دورِ حاضر کے بعض شیعہ علماء اس تصور کے قائل نہیں ہیں. ایک شیعہ عالم دین سید ہادی علی نقوی نے بہت شدّومدّ کے ساتھ اس تصور کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ہم اسی قرآن کو مانتے ہیں‘ یہی اصل قرآن ہے اور اسے من و عن محفوظ مانتے ہیں. ہمارے نزدیک کوئی آیت اس سے خارج نہیں ہوئی اور کوئی شے باہر سے بعد میں اس میں داخل نہیں ہوئی. یہی جو ’’دُفَّتین‘‘ یعنی جلد کے دو گتّوں کے مابین ہے‘ یہی حقیقی اور اصلی قرآن ہے‘‘.

بہر حال اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایسا کوئی مصحف تھا جسے آپ نے ترتیب نزولی کے مطابق مرتب کیا تھا تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں. علمی اور تحقیقی اعتبار سے قرآن حکیم پر غور وفکر کرنے کے لیے قرآن مجید کے بعض انگریزی تراجم میں بھی ترتیب نزولی کے اعتبار سے سورتوں کو مرتب کر کے ترجمہ کیا گیا ہے. (محمد عِزۃ د روِزۃ نے بھی اپنی تفسیر ’’التفسیر الحدیث‘‘ میں سورتوں کو نزولی اعتبار سے ترتیب دیا ہے.) علمی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ‘لیکن ا صل حجیت ترتیب مصحف کی ہے. یہ ترتیب توقیفی ہے. یہ محمدٌ رسول اللہ کی دی ہوئی ترتیب ہے اور یہی ترتیب لوح محفوظ میں ہے. اصل قرآن تو وہی ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾ (الواقعۃ) اور: بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ (البروج) ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں جلال الدین سیوطی نے بہت ہی زور اور تاکید کے ساتھ کسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر تمام انسان اور جن مل کر کو شش کر لیں تب بھی ترتیب نزولی پر قرآن کو مرتب نہیں کیا جا سکتا.

اس لیے کہ اس کے بارے میں ہمارے پاس مکمل معلومات نہیں ہیں. بہت سی سورتوں کے اندر بعد میں نازل ہونی والی آیات پہلے آ گئی ہیں اور شروع میں نازل ہونی والی بعد میں آئی ہیں. اس اعتبار سے ایک ایک آیت کے بار ے میں معین کرنا اور اس کی ترتیب کے بارے میں اجماع ناممکن ہے. چنانچہ اصل مصحف وہی ہے جو ہمارے پاس ہے اور اس کی ترتیب بھی توقیفی ہے جو محمدٌرسول اللہ نے بتائی ہے.

اس ترتیب مصحف کے اعتبار سے اِس دور میں سورتوں کی ایک نئی گروپنگ کی طرف راہنمائی ہوئی ہے. مولانا حمید الدین فراہی ؒ نے خاص طور پر اپنی توجہ کو نظم قرآن پر مرکوز کیا‘ آیات کا باہمی ربط تلاش کیا.نیز یہ کہ آیتوں کی وہ کون سی قدر مشترک ہے جس کی بنا پر ان کو سورتوں میں جمع کیا گیا پھر یہ کہ ہر سورۃ کا ایک عمود اور مرکزی مضمون ہے‘ بظاہر آیات غیر مربوط نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت اُن کے مابین ایک منطقی ربط موجود ہے اور ہر آیت اس سورۃ کے عمود کے ساتھ مربوط ہے مزید یہ کہ سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں ان چیزوں پر مولانا فراہیؒ نے زیادہ توجہ کی. مولانا اصلاحی صاحب نے اس بات کو مزید آگے بڑھایا ہے. 

اس ضمن میں ایک اشتباہ پیدا ہو سکتا ہے ‘ جسے رفع کر دینا ضروری ہے کہ قرآن مجید کا یہ پہلو اس زمانے میں کیوں سامنے آیا اور اس سے پہلے اس پر غور کیوں نہیں ہو سکا؟ کیا ہمارے اسلاف قرآن مجید پر تدبر کا حق ادا نہیں کرتے تھے؟ اس اشتباہ کو اپنے ذہن میں نہ آنے دیں‘ اس لیے کہ قرآن مجید کی شان یہ ہے کہ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے. حضور کا اپنا قول ہے کہ ’’لَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہُ‘‘ . اگرکوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی خاص دور کے محدثین‘ محققین‘ مفسرین قرآن مجید کے علم کا بتمام و کمال احاطہ کر چکے تو وہ سخت غلطی پر ہے. اگر ایسا ہوتا تو یہ قرآن مجید پر بھی طعن ہوتا اور خود حضورؐ کے اس قول کی بھی نفی ہوتی. یہ تو جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھے گا قرآن مجید کے عجائب‘ اس کی حکمتیں ‘اس کے علوم و معارف کے نئے نئے خزانے برآمد ہوتے رہیں گے. چنانچہ ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ مطالعہ قرآن کے بعد ہم یہ محسوس کریں کہ ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کو سیکھا ہے اور بعد میں آنے والے اس میں سے کچھ اور بھی حاصل کریں گے‘ وہ ہمیشہ اس کے لیے کوشاں رہیں گے‘اس میں غور و فکر اور تدبر کرتے رہیں گے اور نئے نئے علوم اورنئے نئے نکات اس میں سے برآمد ہوتے رہیں گے.

اللہ تعالیٰ کی حکمت میں یہی زمانہ اس انکشاف کے لیے معین تھا ‘اور ظاہر بات ہے کہ حکمتِ قرآنی کا جو بھی کوئی نیا پہلو دریافت ہو گا وہ کسی انسان ہی کے ذریعے سے ہو گا. لہذا اس کے لیے طبیعت کے اندر بُعد محسوس نہ کریں. بہرحال مولانا فراہیؒ نے نظم قرآن کو اپنا خصوصی موضوع بنایا. وہ تفسیر قرآن لکھنا چاہتے تھے مگر لکھ نہیں سکے‘ صرف چند سورتوں کی تفاسیر انہوں نے لکھی ہیں. ان میں سے بھی بعض نامکمل ہیں. وہ ایک مفکر قسم کے انسان تھے‘ مصنف قسم کے انسان نہیں تھے. مفکر انسان مسلسل غور کرتارہتا ہے اور اس کے سامنے نئے نئے پہلو آتے رہتے ہیں. چنانچہ ان کا تصنیف و تالیف کا انداز یہ تھاکہ انہوں نے مختلف موضوعات پر فائل کھول رکھے تھے. جب کوئی نیا خیال آتا تو کاغذ پر لکھ کر متعلقہ فائل میں شامل کر لیتے. یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر تصانیف ان کی وفات کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئی ہیں‘ جبکہ ان کے زمانے میں وہ صرف فائلوں کی شکل میں تھیں اور کسی شے کے چھپنے کی نوبت آئی ہی نہیں.سوچ و بچار کا تسلسل ان کے آخری لمحے تک جاری رہا. ’’مقدمہ نظام القرآن‘‘واقعتا ان کے فکر اور سوچ کی صحیح نمائندگی کرتاہے. اس ضمن میں ان کے شاگرد رشید امین احسن اصلاحی صاحب نے بات کو آگے بڑھایا ہے. نظم قرآن کے بارے میں ان حضرات کے نتیجۂ فکر کے چند نکات ملاحظہ ہوں:

(i) ہر سورت کا ایک عمود ہے‘ جیسے ایک ہار کی ڈوری ہے اور اس میں موتی پروئے ہوئے ہیں. یہ ڈوری دیکھنے والوں کونظر نہیں آتی ‘موتی نظر آتے ہیں‘لیکن ان کو باندھنے والی شے تو ڈوری ہے جس میں وہ پروئے گئے ہیں. اسی طرح ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون یاعمودہے جس کے ساتھ اس کی تمام آیات مربوط ہیں .

(ii)قرآن مجید کی اکثر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہی مضمون کا ایک رخ ایک سورت میں آجاتا ہے اور اسی کا دوسرا رخ اس جوڑے کے دوسرے حصّے میں آ کر مضمون کی تکمیل کر دیتا ہے. مولانا اصلاحی صاحب نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے. البتہ جہاں تک اس اصول کے انطباق کا تعلق ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے اور جو حضرات میرے دروس میں تسلسل سے شرکت کرتے رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ مجھے بہت سے مواقع پر اصلاحی صاحب سے اختلاف بھی ہے‘ لیکن اصولاً یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کی اکثر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں. تاہم بعض سورتیں منفرد حیثیت کی مالک ہیں‘ ان کا جوڑا اس جگہ پرموجود نہیں ہے. اگرچہ میں نے تحقیق کی ہے کہ اکثر وبیشتر ایسی سورتوں کے جوڑے بھی معناً قرآن میں موجود ہیں.

مثلاً سورۃ النور تنہا اور منفرد ہے‘سورۃ الاحزاب بھی منفرد اور تنہا ہے ‘لیکن یہ دونوں آپس میں جوڑا ہیں اور ان میں جوڑا ہونے کی نسبت بتمام و کمال موجودہے. اسی طرح سورۃ الفاتحہ منفرد ہے. وہ تو اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ واقعتا اس کا بتمام و کمال جوڑا بننا ممکن نہیں‘ وہ اپنی جگہ پر قرآن حکیم اور سَبعًا مِنَ المثَانِی ہے‘ لیکن سورۃ الناس میں غور کریں تو معناً یہ سورت سورۃ الفاتحہ کا جوڑا بنتی ہے. اس لیے کہ سورۃ الفاتحہ میں استعانت ہے اور سورۃ الناس میں استعاذہ. پھر سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی تین شانیں رَبّ‘ مَلِک‘ الٰہ ہیں اور یہی تین شانیں سورۃ الناس میں بھی ہیں. 

(iii) تلاوت کے لیے سات منزلوں کے علاوہ قرآن حکیم میں سورتوں کی ایک معنوی گروپنگ بھی ہے.اس اعتبار سے بھی سورتوں کے سات گروپ ہیں اور ہر گروپ میں مکی اور مدنی دونوں طرح کی سورتیں شامل ہیں. ہر گروپ میں ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتیں اور اس کے بعد ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتیں ہیں. ایک گروپ کی مکی اور مدنی سورتوں میں وہی نسبت ہے جو ایک جوڑے کی دو سورتوں میں ہوتی ہے. جیسے ایک مضمون کی تکمیل ایک جوڑے کی سورتوں میں ہوتی ہے ‘ یعنی ایک رُخ ایک فرد میں اوردوسرا رُخ دوسرے فرد میں ‘اسی طرح ہر گروپ کا ایک مرکزی مضمون اور عمود ہے‘ جس کا ایک رُخ مکی سورتوں میں اور دوسرا رخ مدنی سورتوں میں آجاتا ہے. اس طرح غور و فکر اور تدبر کے نئے میدان سامنے آ رہے ہیں .جو انسان بھی ان کا عمود معین کرنے میں غور و فکر کرے گا وہ کسی نتیجے پر پہنچے گا‘ اگرچہ عمود معین کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے. سب سے بڑ ا گروپ پہلا ہے جس میں مکی سورت صرف ایک یعنی سورۃ الفاتحہ جبکہ مدنی سورتیں چار ہیں جو سوا چھ پاروں پر پھیلی ہوئی ہیں‘یعنی سورۃ البقرۃ‘ آل عمران‘ النساء اور المائدۃ. دوسرا گروپ اس اعتبار سے متوازن ہے کہ اس میں دو سورتیں مکی اور دو مدنی ہیں. سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف مکّی ہیں‘جبکہ سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ مدنی ہیں. تیسرے گروپ میں سورۂ یونس سے سورۃ المؤمنون تک چودہ مکی سورتیں ہیں. یہ تقریباً سات پارے بن جاتے ہیں. اس کے بعد ایک مدنی سورت ہے اور وہ سورۃ النور ہے. اس کے بعد چوتھے گروپ میں سورۃ الفرقان سے سورۃ السجدۃ تک مکیات ہیں‘ پھر ایک مدنی سورت سورۃ الاحزاب ہے.

پانچویں گروپ میں سورۂ سبا سے سورۃ الاحقاف تک مکیات ہیں‘ پھر تین مدنی سورتیں‘ سورۂ محمد‘سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات ہیں. اس کے بعد چھٹے گروپ میں پھر سورۂ ق سے سورۃ الواقعہ تک سات مکیات ہیں جن کے بعد پھر دس مدنیات ہیں سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم. اسی طرح ساتویں گروپ میں بھی پہلے مکی سورتیں ہیں اور آخر میں دو مدنی سورتیں. اس طرح یہ سات گروپ بنتے ہیں. یہ گروپ مولانا اصلاحی صاحب کے مرتب کردہ ہیں. ان میں پہلا اور آخری گروپ اس اعتبار سے عکسی نسبت رکھتے ہیں کہ پہلے گروپ میں صرف ایک سورت سورۃ الفاتحہ مکی ہے اور سوا چھ پاروں پر مشتمل چار طویل ترین سورتیں مدنی ہیں‘ جبکہ آخری گروپ میں سورۃ الملک سے لے کر پورے دو پارے تقریباً مکیات پر مشتمل ہیں‘ آخر میں صرف دوسورتیں ’’ معوذتین‘‘ مدنی ہیں. یعنی یہاں نسبت بالکل عکسی ہے. لیکن دوسرا گروپ بھی متوازن ہے‘ یعنی دو سورتیں مکی‘ دو مدنی اور چھٹا گروپ بھی متوازن ہے کہ اس میں سات سورتیں مکی ہیں( سورۃ ق سے سورۃ الواقعہ تک )جبکہ دس سورتیں مدنی ہیں (سورۃ الحدید سے سورۃ التحریم تک) لیکن حجم کے اعتبار سے تقریباً برابر ہیں. یہ بھی غور و فکر اور سوچ بچار کا ایک موضوع ہے اوراس سے بھی قرآن مجید کی حکمت و ہدایت اور اس کے علم کے نئے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں. 

قرآن حکیم کی سورتوں کے جوڑے ہونے کا معاملہ قرآن مجید میں بعض جگہوں پر تو بہت ہی نمایاں ہے. ’’المُعوَّذَتین‘‘ آخری دو سورتیں ہیں جو تعو ّذ پر مشتمل ہیں: قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ اور: قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ . اسی طرح الزّہراوَین ’’دو نہایت تابناک سورتیں‘‘ سورۃ البقرۃ اور آل عمران ہیں. حضور نے ان دونوں کو بھی ایک نام دیا جیسے آخری دو سورتوں کو ایک نام دیا . اسی طرح سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر میں اور سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الانشراح میں معنوی ربط ہے. سورۃ التحریم اور سورۃالطلاق میں تو یہ ربط بہت ہی نمایاں ہے . دونوں سورتوں کا آغاز بالکل ایک جیسا ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ اور یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ . مضمون کے اندر بھی بڑی گہری مناسبت ہے. اس کے بعد سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا جوڑاہے. سورۃ الصفسَبَّحَ لِلّٰہِ سے اور سورۃ الجمعہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ کے الفاظ سے شروع ہو رہی ہے . سورۃ الصف کی مرکزی آیت جو رسول اللہ  کے مقصدِ بعثت کو معین کر رہی ہے ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ہے ‘جبکہ سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت جوحضور کے انقلاب کا اساسی منہاج معین کر رہی ہے ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ ہے. بہرحال سورتوں کا جوڑا ہونا‘ سورتوں کا گروپ کی شکل میں ہونا‘ ان گروپس کا اپنا ایک عمود اور ایک مرکزی مضمون ہونا ‘ پھر اس کے دو رخ بن جانا جو اُس کی مکیات اور مدنیات میں آتے ہیں‘ قرآن مجید کے علم و حکمت کے خزانے کے وہ دروازے ہیں جو اَب کھلے ہیں.اس طرح کے دروازے ہر دور میں کھلتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کھلتے رہیں گے. چنانچہ قرآن مجید پر تذکر اور تدبر تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے. 

پیچھے سات منزلوں اور سات احزاب کا ذکر ہو چکا . اب مکی اور مدنی سورتوں کے سات گروپس کا بیان ہوا. یہ دونوں قسم کے گروپ دو جگہ پر آ کر مل جاتے ہیں. پہلی منزل تو سورۃ النساء پر ختم ہوجاتی ہے اور پہلا گروپ سورۃ المائدۃ پر ختم ہوتا ہے. سورۃ التوبۃ پر دوسری منزل بھی ختم ہو تی ہے اور دوسرا گروپ بھی ختم ہوتا ہے. سورۂ یونس سے تیسری منزل شروع ہوتی ہے اور تیسرا گروپ بھی شروع ہوتا ہے .اسی طرح ایک مقام اور ہے. سورۂ ق سے آخری منزل بھی شروع ہو رہی ہے اور اسی سے چھٹا گروپ بھی شروع ہو رہا ہے. سورۂ ق چھٹے گروپ کی پہلی مکی سورۃ ہے. یہ چھٹا گروپ سورۃ التحریم پر ختم ہو جاتا ہے اور آخری گروپ سورۃ الملک سے شروع ہوتا ہے‘ لیکن جو منزل سورۂ ق سے شروع ہوتی ہے وہ سورۃ الناس تک ایک ہی ہے.

یہ وہ چیزیں ہیں جو معلومات کے درجے میں سامنے رہیں اور ذہن میں موجود رہیں تو انسان جب غور کرتا ہے تو ان کے حوالے سے بعض اوقات حکمت کے بڑے قیمتی موتی ہاتھ لگتے ہیں.