قرآن کے طالب علم کو جاننا چاہیے کہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں‘ فطری ہے. انسان جس فلسفے سے واقف ہے اس کی بنیاد منطق ہے. چنانچہ ہمارے فلاسفہ اور متکلمین استخراجی منطق(Deductive Logic) سے اعتناء کرتے رہے ہیں‘ جبکہ قرآن مجید نے اسے سرے سے اختیار نہیں کیا. وقتی تقاضے کے تحت ہمارے متکلمین نے اسے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ پایا. ایمانی حقائق کو جب استخراجی منطق کے ذریعے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو یقین کم اور شک زیادہ پیدا ہوا. اس ضمن میں کانٹ کی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے ‘ لہذا علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے. کانٹ نے حتمی طور پر ثابت کر دیا کہ کسی منطقی دلیل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا. منطق میں اللہ کی ہستی کے اثبات کے لیے ایک دلیل لائیں گے تو منطق کی دوسری دلیل اسے کاٹ دے گی. جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح منطق‘ منطق کو کاٹ دے گی. قرآن نے اگرچہ کہیں کہیں منطق کو استعمال توکیا ہے لیکن وہ بھی منطقی اصطلاحات میں نہیں. قرآن مجید کا اسلوبِ استدلال فطری ہے اور اس کا انداز خطابی ہے. جیسے ایک خطیب جب خطبہ دیتا ہے تو جہاں وہ عقلی دلائل دیتا ہے وہاں جذبات سے بھی اپیل کرتا ہے. اس سے اس کے خطبے میں گہرائی و گیرائی پیداہوتی ہے.ایک لیکچر میں زیادہ تر دارومدار منطق پر ہوتا ہے. یعنی ایسی دلیل جو عقل کو قائل کر سکے . لیکن شعلہ بیان خطیب انسان کے جذبات کو اپیل کرتاہے. اس کو خطابی دلیل کہا جاتا ہے. یہی خطابی انداز اور استدلال قرآن نے استعمال کیا ہے.
انسان کی فطرت میں کچھ حقائق موجود ہیں. قرآن کے پیش نظر اِن حقائق کو ابھارنا مقصود ہے. یعنی انسان کوآمادہ کیا جائے کہ ؏
’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی!‘‘
عقل اور منطق کا دائرہ توبڑا محدود ہے.انسان اپنے اندر جھانکے تو اس کے اندر صرف عقل ہی نہیں ہے‘ کچھ اور بھی ہے. بقول علامہ اقبال ؎
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے!
یہ جو اِس کے اندر ’’کوئی اور ‘‘شے بھی ہے‘ اسے اپیل کرنا ضروری ہے تاکہ انسان فطرت کی بنیاد پر اپنے اندر جھانکے اور محسوس کرے کہ ہاں یہ ہے! تاہم اس کے لیے کوئی منطقی دلیل بھی پیش کر دی جائے. تو یہ نورٌ علیٰ نورٍ ہو گا. یہ ہے درحقیقت قرآن کا فطری طرزِ استدلال. بعض مقامات پر ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے قرآن اپنے مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہہ رہا ہے اور اسے توجہ دلا رہا ہے کہ ذرا غور کرو‘ سوچو‘ اپنے اندر جھانکو. جیسے سورۃ ابراہیم کی آیت ۱۰ میں فرمایا گیا : اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ’’کیا اللہ کی ہستی میں کوئی شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟‘‘ یہاں کوئی منطقی دلیل نہیں ہے‘ لیکن مخاطب کو دروں بینی پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ اپنے اندر جھانکو ‘ تمہیں اپنے اندر ثبوت ملے گا ‘تمہیں اپنے اندر اللہ کی ہستی کی شہادت ملے گی. سورۃ الانعام کی آیت ۱۹ میں ارشاد ہوا : اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؕ ’’کیا تم واقعی اس بات کی گواہی دے رہے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ بھی ہے؟‘‘ یعنی تم یہ بات کہہ تو رہے ہو ‘لیکن ذراسوچو تو سہی کیا کہہ رہے ہو؟
کیا تمہاری فطرت اسے تسلیم کرتی ہے؟ اپنے باطن میں جھانکو‘ کیا تمہارا دل اس کی گواہی دیتا ہے؟ حالانکہ ظاہر ہے کہ وہ تو اِس کے مدعی تھے اور اپنے معبودانِ باطل کے لیے کٹ مرنے کو تیار تھے. اس خطابی دلیل کے پس منظر میں یہ حقیقت موجود ہے کہ تم جانتے ہو کہ یہ محض ایک عقیدہ (dogma) ہے جو چلا آ رہا ہے‘ تمہارے باپ دادا کی روایت ہے‘ اس کی حیثیت تمہارے نسلی اعتقادات (racial creed) کی ہے. قرآن مجید درحقیقت انسان کی فطرت کے اندر جو شے مضمر ہے اسی کو ابھار کر باہر لانا چاہتا ہے. چنانچہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں ہے‘ بلکہ فطری ہے. اس کو خطابی انداز کہا جائے گا.