تفسیر اور تاویل دونوں لفظ قرآن مجید میں آئے ہیں. سورۃ آل عمران کی متذکرہ بالا آیت میں ارشاد ہوا : وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ’’اس کی تاویل کو ئی نہیں جانتا مگراللہ‘‘. تفسیر کا لفظ قرآن مجید میں سورۃ الفرقان میں آیا ہے: وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا ﴿ؕ۳۳﴾ ’’اور نہیں لاتے وہ آپ کے سامنے کوئی نرالی بات مگر ہم پہنچا دیتے ہیں (اس کے جواب میں) آپ کو ٹھیک بات اور بہترین طریقے سے بات کھول دیتے ہیں‘‘. یہ لفظ قرآن میں ایک ہی مرتبہ آیا ہے ‘جبکہ تاویل کا لفظ سترہ (۱۷) بار آیا ہے. اس کے کچھ اور مفاہیم بھی ہیں اور قرآن کے علاوہ کچھ اور چیزوں پر بھی اس کا اطلاق ہوا ہے. تفسیر اور تاویل میں فرق کیا ہے ؟ تفسیر کا مادہ ’’ف‘ س‘ ر‘‘ ہے. یہ گویا’’سفر‘‘ کی منقلب شکل ہے. سفر بمعنی Journey بھی ہے اور اس کا مطلب روشنی بھی ہے‘ کتاب بھی ہے. حروف ذرا آگے پیچھے ہو گئے ہیں‘ لفظ ایک ہی ہے.

تفسیر کا معنی ہے کسی شے کا کھولنا‘ واضح کر دینا‘ کسی شے کو روشن کر دینا ‘لیکن یہ زیادہ تر مفردات اور الفاظ سے متعلق ہوتی ہے‘ جبکہ تاویل بحیثیت مجموعی کلام کا اصل مدلول ہوتی ہے کہ اس سے مراد کیا ہے‘ اس سے اصل مقصود کیا ہے‘ اس کی اصل حقیقت کیا ہے. لہذا زیادہ تر یہی لفظ قرآن کے لیے مستعمل ہے. اگرچہ ہمارے ہاں اردو دان لوگ زیادہ تر لفظ تفسیر استعمال کرتے ہیں کہ فلاں آیت کی تفسیر‘ فلاں لفظ کی تفسیر‘ لیکن اس کے لیے قرآن کی اصل اصطلاح تاویل ہی ہے اور حدیث میں بھی یہی لفظ آیا ہے. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے لیے حضور کی دعا منقول ہے : اَللّٰھُمَّ فَقِّہہُّ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ یعنی اے اللہ !اس نوجوان کو دین کا فہم اور تفقہ عطا فرما اور تاویل کا علم عطا فرما!چنانچہ کلام کی اصل حقیقت ‘ اصل مراد‘ اصل مطلوب‘ اصل مدلول کو پالینا تاکہ انسان اصل مقصود تک پہنچ جائے‘ اسے تاویل کہتے ہیں. ؏ 

’’جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!‘‘

ا‘ و‘ ل کا مادہ عربی زبان میں کسی شے کی طرف لوٹنے کے مفہوم میں آتا ہے. اسی لیے لوگ کہتے ہیں ہم فلاں کی آل ہیں ‘یعنی وہ کسی بڑی شخصیت کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں. ’’ آلِ فرعون‘‘ کا مطلب فرعون کی اولاد نہیں ہے ‘بلکہ ’’فرعون والے ‘ فرعونی‘‘ ہے. وہ فرعون ہی کی اطاعت کرتے تھے اور اسی کو اپنا معبود یعنی حاکم اور پیشوا سمجھتے تھے. اسی معنی میں کسی عبارت کو اُس کے اصل مفہوم کی طرف لوٹانا تاویل ہے. تفسیر اور تاویل کے مابین اس فرق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے.