۸) قرآن کے منزّل من اللہ ہونے کا ثبوت

اس ضمن میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت کیا ہے. یاد رکھیے کہ ثبوت دو قسم کے ہوتے ہیں ‘خارجی اور داخلی. خارجی ثبوت خود محمد رسول اللہ کا یہ فرمانا ہے کہ یہ کلام مجھ پر نازل ہوا.پھر آپ کی شہادت بھی دو حیثیتوں سے ہے. آپ کی شخصاً شہادت زیادہ نمایاں اُس وقت تھی جب کہ قرآن نازل ہوا اور حضور خود موجود تھے. وہ لوگ بھی وہاں موجود تھے جنہوں نے آپ  کی چالیس سالہ زندگی کا مشاہدہ کیا تھا‘ جنہیں کاروباری شخصیت کی حیثیت سے آپؐ کے معاملات کا تجربہ تھا. جن کے سامنے آپ کی صداقت‘ دیانت‘ امانت اور ایفائے عہد کا پورا نقشہ موجود تھا. بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جن کے سامنے چہرۂ محمدیؐ موجود تھا. سلیم الفطرت انسان آپ کا روئے انور دیکھ کر پکار اٹھتا تھا کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا ھٰذَا بِوَجْہِ کَذَّابٍ (اللہ پاک ہے‘ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا ).تو حضور  کی شخصیت‘ آپؐ کی ذات اور آپؐ کی شہادت کہ یہ قرآن مجھ پر نازل ہوا‘ سب سے بڑا ثبوت تھا. 

اس اعتبار سے یاد رکھیے کہ محمدٌ رسول اللہ اور قرآن باہم ایک دوسرے کے شاہد ہیں. قرآن محمد کی رسالت پر گواہی دیتا ہے: یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳قرآن گواہی دے رہا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت ذاتِ محمدیؐ ہے. اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت رسول اللہ کی ذات‘ آپؐ کی شخصیت‘ آپؐ کی سیرت و کردار‘ آپؐ کا اخلاق ‘ آپؐ کا وجود‘ آپؐ کی شبیہہ اور چہرہ سامنے تھا. دوسرا پہلو جو دائمی ہے اور آج بھی ہے وہ حضور کا وہ کارنامہ ہے جو تاریخ کی اَن مٹ شہادت ہے. آپ ایچ جی ویلز ‘ ایم این رائے یا ڈاکٹر مائیکل ہارٹ سے پوچھیں کہ وہ کتنا عظیم کارنامہ ہے جو محمدٌ رسول اللہ نے سرانجام دیا. اور آپؐ خود کہہ رہے ہیں کہ میرا آلۂ انقلاب قرآن ہے‘ یہی میرا اسلحہ اور اصل طاقت ہے‘ یہی میری قوت کا سرچشمہ اور میری تأثیر کا منبع ہے. اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو گی؟ یہ تو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی خارجی شہادت ہے. یعنی ’’حضورؐکی شخصیت‘‘. شہادت کا یہ پہلو حضور کے اپنے زمانے میں اورآپ کی حیاتِ دنیاوی کے دوران زیادہ نمایاں تھا. اور جہاں تک آپؐ کے کارنامے کا تعلق ہے اس پر تو عقل دنگ رہ جاتی ہے. دیکھیے مائیکل ہارٹ محمدٌ رسول اللہ کے بارے میں یہ کہنے پر مجبورا ہوا ہے:

".He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels"

یعنی تاریخ انسانی میں صرف وہی واحد شخص ہیں جو سیکولر اور مذہبی دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب رہے اور آپ کا یہ ارشاد ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے. تو خارجی ثبوت گویا بتمام و کمال حاصل ہو گیا.

قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا داخلی ثبوت یہ ہے کہ انسان کا دل گواہی دے. داخلی ثبوت انسان کا اپنا باطنی تجربہ ہوتا ہے. اگر ہزار آدمی کہیں چینی میٹھی ہے مگر آپ نے نہ چکھی ہو تو آپ کہیں گے کہ جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں میٹھی ہے تو ہو گی میٹھی. ظاہر ہے ایک ہزار آدمی مجھے کیوں دھوکہ دیناچاہیں گے‘ یقینا میٹھی ہو گی. لیکن ’’ہو گی‘‘ سے آگے بات نہیں بڑھتی .البتہ جب انسان چینی کو چکھ لے اور اس کی اپنی حس ذائقہ بتا رہی ہو کہ یہ میٹھی ہے تو اب ’’ہوگی‘‘ نہیں ’’ہے‘‘. ’’ہوگی‘‘ اور ’’ہے‘‘ میں درحقیقت انسان کے ذاتی تجربے کا فرق ہے . افسوس یہ ہے کہ آج کی دنیا صرف خارجی تجربات کو جانتی ہے. ایک تجربہ اس سے کہیں زیادہ معتبر ہے اور وہ باطنی تجربہ ہے‘ یعنی کسی شے پر آپ کا دل گواہی دے. اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎ 

تو عرب ہو یا عجم ہو تیرا لا الٰہ اِلاّ
لغتِ غریب ‘ جب تک تیرا دل نہ دے گواہی!

لا الٰہ الاّ اللہ کے لیے اگر دل نے گواہی نہ دی تو انسان خواہ عربی النسل ہو‘ عربی زبان جانتا ہو‘ لیکن اس کے لیے یہ کلمہ لغتِ غریب ہی ہے‘ نامانوس سی بات ہے‘ اس کے اندر پیوست نہیں ہے‘ اس کو متاثر نہیں کرتی. قرآن انسان کی اپنی فطرت کو اپیل کرتا ہے اور انسان کو اپنے من میں جھانکنے کے لیے آمادہ کرتا ہے. وہ کہتا ہے اپنے من میں جھانکو‘دیکھو تو سہی‘ غور تو کرو: اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ؟ کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے؟ اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؟ کیا تم واقعتاً یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں ہے!

علامہ ابن قیّم ؒ نے اس کی بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو یوں محسوس کرتے ہیں کہ وہ مصحف سے نہیں پڑھ رہے بلکہ قرآن اُن کے لوحِ قلب پر لکھا ہوا ہے‘ وہاں سے پڑھ رہے ہیں. گویا فطرتِ انسانی کو قرآن مجید کے ساتھ اتنی ہم آہنگی ہو جاتی ہے. 

ہمارے دَور کے ایک صوفی بزرگ کہا کرتے ہیں کہ روحِ انسانی اور قرآن حکیم ایک ہی گاؤ ں کے رہنے والے ہیں. جیسے ایک گاؤں کے رہنے والے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور باہم انسیت محسوس کرتے ہیں ایسا ہی معاملہ روحِ انسانی اور قرآن حکیم کا ہے.قرآن کو پڑھ کر اور سن کر روحِ انسانی محسوس کرتی ہے کہ اس کا منبع اور سرچشمہ وہی ہے جو میرا ہے. جہاں سے میں آئی ہوں یہ کلام بھی وہیں سے آیا ہے. یقینااس کلام کا منبع اور سرچشمہ وہی ہے جو میرے وجود‘ میری ہستی اور میری روح کا منبع اور سرچشمہ ہے. یہ ہم آہنگی ہے جو اصل باطنی تجربہ بن جائے تب ہی یقین ہوتا ہے کہ یہ کلام واقعتا اللہ کا ہے.