اعجازِ قرآن کے اہم اور بنیادی وجوہ

قرآن اور صاحبِ قرآنؐ کا باہمی تعلق

میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن مجید اور نبی اکرم دونوں ایک دوسرے کے شاہد ہیں. قرآن کے منزَّل مِن اللہ ہونے کی سب سے بڑی اور سب سے معتبر خارجی گواہی نبی اکرم کی اپنی گواہی ہے. آپؐ ‘ کی شخصیت‘ آپ ؐ ‘ کا کردار‘ آپ ؐ ‘کا چہرۂ انور اپنی اپنی جگہ پرگواہ ہیں.ہمارے لیے اگرچہ آپ کی سیرت آج بھی زندہ وپائندہ ہے‘ کتابوں میں درج ہے‘ لیکن ایک مجسم انسانی شخصیت کی صورت میں آپ ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں‘ ہم آپ کے روئے انور کی زیارت سے محروم ہیں. تاہم آپ کا کارنامہ زندہ و تابندہ ہے اور اس کی گواہی ہر شخص دے رہا ہے. ہر مؤرخ نے تسلیم کیا ہے ‘ ہر مفکر نے مانا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو حضور نے برپا کیا. آپؐ ‘کی یہ عظمت آج بھی مبرہن ہے‘ آشکارا ہے‘ اظہر من الشمس ہے. چنانچہ قرآن کے منزَّل مِن اللہ اور کلامِ الٰہی ہونے پر سب سے بڑی خارجی گواہی خود نبی اکرم ہیں‘ اور نبی اکرم کے نبی اور رسول ہونے کا سب سے بڑا گواہ ‘ سب سے بڑا شاہداورسب سے بڑا ثبوت خود قرآن مجید ہے.

اس اعتبار سے یہ دونوں جس طرح لازم و ملزوم ہیں اس کے لیے میں قرآن حکیم کے دو مقامات سے استشہاد کر رہا ہوں. سورۃ البینہ میں فرمایا: 

لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾ 
’’اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کیا اور مشرک باز آنے والے نہ تھے یہاں تک کہ اُن کے پاس ’بیّنہ‘ آ جاتی‘‘. 

’’بیّنۃ‘‘ کھلی اور روشن دلیل کو کہتے ہیں. ایسی بالکل روشن حقیقت جس کو کسی خارجی دلیل کی مزید حاجت نہ ہو وہ ’’بیّنہ‘‘ ہے. جیسے ہم اپنی گفتگو میں کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل بیّن ہے‘ بالکل واضح ہے‘ اس پر کسی قیل و قال کی حاجت ہی نہیں ہے. بلکہ اگر بیّنہ پر کوئی دلیل لانے کی کوشش کی جائے تو کسی درجے میں شک و شبہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے‘ اس پر یقین میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا. اور یہ بیّنہ کیا ہے؟ فرمایا:

رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳
’’ایک رسول اللہ کی جانب سے جو پاک صحیفے پڑھ کر سناتا ہے‘ جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں‘‘.

یہاں قرآن حکیم کی سورتوں کو اللہ کی کتابوں سے تعبیر کیا گیا ہے ‘جو قائم و دائم ہیں اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہیں. تو گویا رسولؐ ‘ کی شخصیت اور اللہ کا یہ کلام جو اُن پر نازل ہوا ‘ دونوں مل کر ’’بیّنہ‘‘بنتے ہیں.

میں نے قرآن فہمی کا یہ اصول بارہا عرض کیا ہے کہ قرآن مجید میں اہم مضامین کم سے کم دو جگہ ضرور آتے ہیں. چنانچہ اس کی نظیر سورۃ الطلاق میں موجود ہے. اس کی آیت ۱۰ اِن الفاظ پر ختم ہوتی ہے : قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا ﴿ۙ۱۰﴾ ’’اللہ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کر دیا ہے‘‘.اور یہ ذکر کیا ہے؟ فرمایا: رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ’’ایک ایسا رسول جو تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے اللہ کی آیات جو ہر شے کو روشن کر دینے والی (اور ہر حقیقت کو مبرہن کر دینے والی) ہیں‘ تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے‘‘.یہاں ’’اٰیٰتٍ بَـیِّنٰتٍ‘‘ کے بجائے ’’اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ‘‘ آیا ہے. ’’بیِّن‘‘ وہ چیز ہے جو خود روشن ہے اور ’’مُـبَــیِّن‘‘ وہ چیز ہے جو دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہے‘ حقائق کو اجاگر کرتی ہے. تو یہاں پر ذکر کی جو تاویل کی گئی کہ رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ اس سے واضح ہوا کہ قرآن اور محمدٌ رسول اللہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے اور ملے ہوئے ہیں کہ ایک حیاتیاتی وجود (Organic Whole) بن گئے ہیں. یہ ایک دوسرے کے لیے شاہد بھی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے complimentary بھی ہیں.اس حوالے سے یہ دونوں حقیقتیں اس طرح جمع ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کی جا سکتیں.