پہلے گزر چکا ہے کہ معجزے میں تحدّی (چیلنج) بھی ضروری ہے اور دعویٰ بھی. لہذا وہ مقامات گن لیجیے جن میں چیلنج ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ محمد کا کلام ہے‘ انسانی کلام ہے جسے محمد نے خود گھڑ لیا ہے‘ یہ اُن کی اپنی اختراع ہے تو تم مقابلہ کرو اور ایسا ہی کلام پیش کرو. قرآن مجید میں ایسے پانچ مقامات ہیں . سورۃ الطور میں فرمایا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ ۚ بَلۡ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۚ۳۳﴾فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴
’’کیا اُن کا یہ کہنا ہے کہ یہ محمد ؐ نے خود گھڑ لیا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں. پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں‘‘.

قَالَ ‘ یَـقُوْلُ کا معنی ہے کہنا. جبکہ تَقَوَّلَ‘ یَتَقَوَّلُ کا مفہوم ہے تکلف کر کے کہنا‘ یعنی محنت کر کے کلام موزوں کرنا (جس کے لیے انگریزی میں composition کا لفظ ہے.) توکیا اُن کا خیال ہے کہ یہ محمد نے خود کہہ لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں‘ لہذا اس طرح کی کٹ حجتیاں کر رہے ہیں. اگر یہ سچے ہیں تو ایسا ہی کلام پیش کریں. آخر یہ بھی انسان ہیں‘ اِن میں بڑے بڑے شعراء اور بڑے قادر الکلام خطیب موجود ہیں. ان میں وہ شعراء بھی ہیں جن کو دوسرے شعراء سجدہ کرتے ہیں. یہ سب کے سب مل کر ایسا کلام پیش کریں.سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا:

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾ 
’’(اے نبیؐ ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمام جن و اِنس جمع ہو جائیں (اوراپنی پوری قوت و صلاحیت اور اپنی تمام ذہانت و فطانت‘ قادر الکلامی کو جمع کر کے کوشش کریں) کہ اِس قرآن جیسی کتاب پیش کر دیں تو وہ ہرگز ایسی کتاب نہیں لاسکیں گے چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی ہی مدد کریں‘‘.

یہ تو بحیثیت مجموعی پورے قرآن مجید کی نظیر پیش کرنے سے مخلوق کے عاجز ہونے کا دعویٰ ہے جو قرآن مجید نے دو مقامات پر کیا ہے. سورۂ یونس میں اس سے ذرانیچے ا تر کر‘ جسے برسبیل تنزّل کہا جاتا ہے‘ فرمایا کہ پور ے قرآن کی نظیر نہیں لا سکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑکر لے آؤ! ارشاد ہوا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾ (ھود) 
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن خود گھڑ کر لے آیا ہے؟ (اے نبیؐ ! ان سے ) کہیے پس تم بھی دس سورتیں بنا کر لے آؤ ایسی ہی گھڑی ہوئی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو‘‘.

اس کے بعد دس سے نیچے اتر کر ایک سورۃ کا چیلنج بھی دیا گیا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾ (یونس)
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن خود بنا کر لے آیا ہے؟ (اے نبیؐ !ان سے ) کہیے پس تم بھی ایک سورت بنا کر لے آؤ ایسی ہی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم‘سچے ہو‘‘.

یہ چاروں مقامات تو مکی سورتوں میں ہیں. پہلی مدنی سورۃ ’’البقرۃ‘‘ ہے. اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے :

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴
’’اگر تم لوگوں کو شک ہے اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کیا ہے (کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے) تو اس جیسی ایک سورۃ تم بھی (موزوں کر کے) لے آؤ اور اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو( ان سب کو جمع کر لو) اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو. اور اگر تم ایسا نہ کر سکو‘ اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے‘ تو بچواُس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے‘ یہ منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘.

یہاں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تم سچے نہیں ہو‘ تمہارا دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے‘ لیکن چونکہ تم زبان سے تنقید کر رہے ہو اور جھٹلا رہے ہو تو اگرواقعتا تمہیں شک ہے تو اِس شک کو رفع کرنے کے لیے ہمارا یہ چیلنج موجود ہے.

یہ ہیں قرآن مجید کے معجزہ ہونے کے دو اسلوب. ایک مثبت انداز ہے کہ قرآن گواہ ہے اس پر کہ اے محمد  ! آپ اللہ کے رسول ہیں ‘اور دوسرا انداز چیلنج کا ہے کہ اگر تمہیں اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہے تو اس جیسا کلام تم بھی بنا کر لے آؤ.