عہدِ حاضر میں اعجازِ قرآن کا مظہر : علامہ اقبال

وجوہِ اعجازِ قرآن کے ضمن میں ایک اہم بات عرض کر رہا ہوں کہ میرے نزدیک عہدِ حاضر میں قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا مظہر علامہ اقبال کی شخصیت ہے. میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن حکیم زمان و مکان کے ایک خاص تناظر میں آج سے چودہ سو برس قبل نازل ہوا تھا. اس کے اوّلین مخاطب عرب کے اجڈ‘ دیہاتی‘ بدو اور ناخواندہ لوگ تھے جنہیں قرآن نے ’’اُمِّـیّین‘‘ اور ’’قَوْمًا لُّــدًّا‘‘ قرار دیا ہے. لیکن اِس قرآن نے ان کے اندر بجلی دوڑا دی. اُن کے ذہن‘ قلب اور روح کو متأثر کیا‘ پھر اُن میں ولولہ پیدا کیا‘ ان کے باطن کو منور کیا.ان کی شخصیتوں میں انقلاب آیا اور افراد بدل گئے. پھر انہوں نے ایسی قوت کی حیثیت اختیار کی کہ جس نے دنیا کو ایک نیا تمدن‘ نئی تہذیب اور نئے قوانین دے کر ایک نئے دَور کا آغاز کیا لیکن بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسا ایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا‘ جس نے مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھ لیے‘ جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا‘ جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا‘ اُس کو اِس قرآن نے اس طرحpossess کیا اور اس پر اس طرح اپنی چھاپ قائم کی کہ اس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآن حکیم سے اور اس کی تشنگی ‘ٔ علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے. گویا بقول خود اُن کے ؎

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں!

میر اایک کتابچہ ’’علامہ اقبال اور ہم‘‘ ایک عرصے سے شائع ہوتا ہے. یہ میری ایک تقریر ہے جو میں نے ایچی سن کالج میں ۱۹۷۳ء میں کی تھی. اس میں مَیں نے علامہ اقبال کے لیے چند اصطلاحات استعمال کی ہیں. ’’اقبال اور قرآن‘‘ کے عنوان سے میں نے علامہ اقبال کو (۱) عظمتِ قرآن کا نشان‘ (۲) واقفِ مرتبہ و مقامِ قرآن‘ اور (۳) داعی الی القرآن کے خطابات دیے ہیں. میں علامہ اقبال کو اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن سمجھتا ہوں. قرآن مجید کے علوم و معارف کی جو تعبیر علامہ اقبال نے کی ہے اس دَور میں کوئی دوسری شخصیت اس کے آس پاس بھی نہیں پہنچی. ان سے لوگوں نے چیزیں مستعار لی ہیں اور پھر اُن کو بڑے پیمانے پر پھیلایا ہے. ان حضرات کی یہ خدمت اپنی جگہ قابل قدر ہے ‘لیکن فکری اعتبار سے وہ تمام چیزیں علامہ اقبال کے ذہن کی پیداوار ہیں.

مذکورہ بالا کتابچے میں مَیں نے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گواہی بھی شائع کی ہے. کئی سال پہلے کاواقعہ ہے کہ مولانا آنکھوں کے آپریشن کے لیے خانقاہ ڈوگراں سے لاہور آئے ہوئے تھے اور آپریشن میں کسی وجہ سے تأخیر ہو رہی تھی. گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے اُن کا لکھنے پڑھنے کا سلسلہ معطل ہو گیا. تاہم فرصت کے اُن ایّام میں مولانا نے علامہ اقبال کا پورا اردو اور فارسی کلام دوبارہ پڑھ لیا. اس کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں مجھ سے دو تأ ثر بیان کیے. مولانا کا پہلا تأ ثر تو یہ تھا کہ ’’قرآن حکیم کے بعض مقامات کے بارے میں مجھے کچھ مان سا تھا کہ میں نے ان کی تعبیر جس اسلوب سے کی ہے شاید کوئی اور نہ کر سکے. لیکن علامہ اقبال کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ وہ ان کی تعبیر مجھ سے بہت پہلے اور مجھ سے بہت بہتر کر چکے ہیں!‘‘ مولانا اصلاحی صاحب کا دوسرا تأ ثر یہ تھا کہ ’’اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد میرا دل بیٹھ سا گیا ہے کہ اگر ایسا حُدی خواں اِس اُمت میں پیدا ہوا‘ لیکن یہ اُمت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ہماشما کے کرنے سے کیا ہو گا!‘‘ جو قوم علامہ اقبال کے کلام سے حرکت میں نہیں آئی اسے کون حرکت میں لا سکے گا؟ 

واقعہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن اور سب سے بڑا داعی الی القرآن علامہ اقبال ہے. اس لیے کہ قرآن مجید کی عظمت کا جس گیرائی اور گہرائی کے ساتھ احساس علامہ اقبال کو ہوا ہے میری معلومات کی حد تک (اگرچہ میری معلومات محدود ہیں) اس درجے قرآن کی عظمت کا انکشاف کسی اور انسان پر نہیں ہوا. جب وہ قرآن مجید کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُن کی دید اور اُن کا تجربہ ہے‘ کیونکہ جس انداز سے وہ بات بیان کرتے ہیں وہ تکلف اور آورد سے ماورا انداز ہوتا ہے. ملاحظہ کیجیے کہ علامہ اقبال قرآن مجید کے بارے میں کیا کہتے ہیں: ؎ 

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اُو لا یزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ اُو را ریب نے ‘ تبدیل نے
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویا است ایں
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود!

’’وہ زندہ کتاب‘ قرآن حکیم ‘ جس کی حکمت لازوال بھی ہے اور قدیم بھی!

زندگی کے وجود میں آنے کا خزینہ‘ جس کی حیات افروز اور قوت بخش تأثیر سے بے ثبات بھی ثبات و دوام حاصل کر سکتے ہیں.

اس کے الفاظ میں نہ کسی شک و شبہ کا شائبہ ہے نہ ردّ و بدل کی گنجائش. اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں. (اس کتاب کے بارے میں) جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں کچھ اور ہی شے ہے!

یہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ (کا کلام ہے لہذا اسی) کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی‘ اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی!

(یہ کتابِ حکیم) جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے تو اُس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے ‘ اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آ جاتی ہے‘‘.
قرآن حکیم کے بارے میں مزید لکھتے ہیں: ؎ 

صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست
عصر ہا پیچیدہ در آناتِ اوست! 

’’اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہان آباد ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود ہیں‘‘.(گویا ہر زمانے میں یہ قرآن ایک نئی شان اور نئی آن بان کے ساتھ دنیا میں آیا ہے اور آتا رہے گا.)

اب آپ علامہ اقبال کے تین اشعار ملاحظہ کیجیے جو انہوں نے نبی اکرم سے مناجات کرتے ہوئے کہے. اِن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ انہیں کتنا یقین تھا کہ میرے فکر کا منبع قرآن حکیم ہے. چنانچہ ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ کے آخر میں ’’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃٌ لّلعالمینؐ ‘‘ کے ذیل میں یہاں تک لکھ دیا کہ : ؎

گر دِلم آئینۂ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است
پردئہ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن!
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا!
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا!

’’اگر میرے دل کی مثال اس آئینے کی سی ہے جس میں کوئی جوہر ہی نہ ہو‘ اور اگر میرے کلام میں قرآن کے سوا کسی اور شے کی ترجمانی ہے‘ تو 

(اے نبی !) آپ میرے ناموسِ فکر کا پردہ خود چاک فرما دیں اور اس چمن کو 
مجھ ایسے خار سے پاک کر دیں. (مزید برآں) حشر کے دن مجھے خوار و

رسواکردیں اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) مجھے اپنی قدم بوسی کی سعادت سے محروم فرمادیں!‘‘

میں نے اپنی امکانی حد تک قرآن حکیم کا پور ی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور اس پر غور و فکر اور سوچ بچار کیا ہے. میں نے علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام بھی پڑھا ہے.اس کے بعد میں نے یہ بات ریکارڈ کرانی ضروری سمجھی ہے کہ علامہ اقبال کے بارے میں مَیں نے جو بات ۱۹۷۳ء میں کہی تھی آج بھی میں اسی بات پر قائم ہوں کہ ’’اس دَور میں عظمتِ قرآن اور مرتبہ و مقامِ قرآن کا انکشاف جس شدت کے ساتھ اور جس درجہ میں علامہ اقبال پر ہوا شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو‘‘. اور یہ کہ میرے نزدیک اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن اور داعی الی القرآن اقبال ہے . علامہ اقبال مسلمانوں کی قرآن سے دُوری پر مرثیہ کہتے ہیں : ؎ 

جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مؤمن کا دیں!

مسلمانوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ؎ 

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسینِ او آساں بمیری!

’’اس قرآن کے ساتھ تمہارا اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں رہا کہ تم کسی شخص کو عالمِ نزع میں اِس کی سورۂ یٰسٓ سنا دو ‘تاکہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے.‘‘

ہمارے ہاں صوفی اور واعظ حضرات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی مجالس اور اپنے وعظ کے لیے کچھ اور چیزوں کو منتخب کر لیا ہے‘ تو اس پر اقبال نے کس قدر دردناک مرثیے کہے ہیں اور کس قدر صحیح نقشہ کھینچا ہے : ؎ 

صوفی ٔ پشمینہ پوشِ حال مست
از شرابِ نغمۂ قوال مست
آتش از شعرِ عراقی ؔ در دلش
در نمی سازد بقرآں محفلش 

اور ؎ 

واعظِ دستاں زن و افسانہ بند
معنی ٔ اُو پست و حرفِ اُو بلند
از خطیب و دیلمی گفتارِ او
با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ اُو! 

’’ادنیٰ لباس میں ملبوس اور اپنے حال میں مست صوفی قو ال کے نغمے کی شراب ہی سے مدہوش ہے. اس کے دل میں عراقی ؔ کے کسی شعر سے تو آگ سی لگ جاتی ہے لیکن اس کی محفل میں قرآن کا کہیں گزر نہیں!

(دوسری طرف) واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ بھی خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھ دیتا ہے اور اس کے الفاظ بھی پُرشکوہ اور بلند و بالا ہیں‘ لیکن معنی کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے! اس کی ساری گفتگو (بجائے قرآن کے) یا تو خطیب بغدادی سے ماخوذ ہوتی ہے یا امام دیلمی سے‘ اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف ‘ شاذ اور مرسل حدیثوں سے رہ گیا ہے!‘‘

علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال و اضمحلال کا اور اُمت مسلمہ کے نکبت و افلاس اور ذلت وخواری کا اصل سبب قرآن سے دُوری اور کتابِ الٰہی سے بُعد ہی ہے. چنانچہ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے : ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

بعد میں اسی مضمون کا اعادہ علامہ مرحوم نے فارسی میں نہایت پُرشکوہ الفاظ اور حد درجہ درد انگیز اور حسرت آمیز پیرائے میں یوں کیا: ؎ 

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ! 

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے! اے وہ قوم کہ جو شبنم کے مانند زمین پر بکھری ہوئی ہے (اور پاؤں تلے روندی جا رہی ہے) !اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتابِ زندہ موجود ہے (جس کے ذریعے تو دوبارہ بامِ عروج پر پہنچ سکتی ہے).‘‘

میں اپنا یہ تا ٔثر ایک بار پھر دہرا رہا ہوں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کی عظمت جس درجہ اُن پر منکشف ہوئی تھی‘ میں اپنی محدود معلومات کی حد تک کہنے کو تیار ہوں کہ وہ مجھے کہیں اور نظر نہیں آتی. میرے نزدیک علامہ اقبال دورِ حاضر میں اعجازِ قرآن کا ایک عظیم مظہر ہیں.