مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق

تعارفِ قرآن کے ضمن میں جو کچھ میں نے عرض کیا ان سب باتوں کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے وہ کیا ہے؟ یعنی قرآن حکیم کے بارے میں مجھ پر اور آپ پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس کے اعتبار سے میں خاص طور پر اپنی کتاب ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہماری تحریک رجوع الی القرآن کے لیے دو بنیادوں میں سے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے. ہماری اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۵ء سے ہوا تھا. ابتدائی چھ سات سال تو میں تنہا تھا. نہ کوئی انجمن تھی‘ نہ کوئی ادارہ‘ نہ جماعت. پھر انجمن خدام القرآن قائم ہوئی‘ پھر۱۹۷۶ء میں قرآن اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھا گیا. قرآن اکیڈمی کی تعمیرات مکمل ہونے کے بعد پھر اسی کے بطن سے قرآن کالج کی ولادت ہوئی‘ جس کے سر پر قرآن آڈیٹوریم کا تاج سجا ہوا ہے. اس پوری جدوجہد کی بنیاد اور اساس دو کتابچے ہیں: (۱) ’’اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کرنے کا اصل کام‘‘. یہ مضمون میں نے ۱۹۶۷ء میں میثاق کے اداریے کے طور پر لکھا تھا . (۲) ’’مسلمانوں پر قرآن مجیدکے حقوق‘‘. یہ کتابچہ میری دو تقریروں پر مشتمل ہے جو میں نے ۱۹۶۸ء میں کی تھیں. 

اس کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے میں جشن خیبر اور جشن مہران وغیرہ جیسے مختلف عنوانات سے جشن منائے جا رہے تھے‘ جن میں راگ رنگ کی محفلیں بھی ہوتی تھیں . صدر ایوب خان کا زمانہ تھا. اگرچہ شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے‘ لیکن ’’سب اچھا ہے ‘‘کے اظہار کے لیے یہ شاندار تقریبات منعقد کی جارہی تھیں. یہ گویا اُن کے دورِ حکومت کی آخری بھڑک تھی‘ جیسے بجھنے سے پہلے چراغ بھڑکتا ہے.

علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے: ؏ ’’مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے!‘‘ لیکن اُن دنوں ذکر و فکر کی بجائے لوگوں کو راگ رنگ کی محفلوں میں مست رکھنے کا اہتمام ہو رہا تھا. اسی زمانے میں مذہبی لوگوں کو رشوت کے طور پر ’’جشنِ نزولِ قرآن‘‘ عطا کیا گیا کہ تم بھی جشن مناؤ اور اپنا ذوق و شوق پورا کرلو. چنانچہ چودہ سو سالہ ’’جشنِ نزولِ قرآن‘‘ کا انعقاد ہوا. اس کے ضمن میں قراء ت کی بڑی بڑی محفلیں منعقد ہوئیں‘ جن میں پوری دنیا سے قراء حضرات شریک ہوئے. اسی سلسلے میں سونے کے تار سے قرآن لکھنے کا پروجیکٹ شروع ہوا. 

اُس وقت میرا ذہن منتقل ہوا کہ کیا قرآن حکیم کا ہم پر یہی حق ہے؟ کیا اپنے ان کاموں سے ہم قرآن مجید کا حق ادا کر رہے ہیں؟چنانچہ میں نے مسجد خضراء سمن آباد میں اپنے دو خطاباتِ جمعہ میں مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق بیان کیے کہ ہر مسلمان پر حسب استعداد قرآن مجید کے پانچ حق عائد ہوتے ہیں:

۱) اسے مانے جیسا کہ ماننے کا حق ہے . (ایمان و تعظیم)
۲) اسے پڑھے جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے . (تلاوت و ترتیل)
۳) اسے سمجھے جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے . (تذکر و تدبر)
۴) اس پر عمل کرے جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے. (حکم وا قامت)

انفرادی زندگی میں حکم بالقرآن یہ ہے کہ ہماری ہر رائے اور ہر فیصلہ قرآن پر مبنی ہو. اور اجتماعی زندگی میں قرآن پر عمل کی صورت اقامت ما انزل من اللہ یعنی قرآن کے عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی کو قائم کرنا ہے. قرآن حکیم میں ارشاد ہے :

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (المائدۃ:۶۸)
’’اے کتاب والو! تمہارا کوئی مقام نہیں جب تک کہ تم قائم نہ کرو تورات اور انجیل کو اور جو کچھ تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے تمہارے ربّ کی طرف سے‘‘.

۵) قرآن کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اسے پھیلانا اور عام کرنا. (تبلیغ و تبیین)

ان پانچ عنوانات کے تحت الحمد للہ ثم الحمد للہ یہ بہت جامع کتابچہ مرتب ہوا اور بلامبالغہ یہ لاکھوں کی تعداد میں چھپا ہے. پھر انگریزی ‘ عربی‘ فارسی‘پشتو‘ تامل‘ ملیشیا کی زبان اور سندھی میں اس کے تراجم ہوئے. جو حضرات بھی ہماری اس تحریک رجوع الی القرآن سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں‘ میرے دروس میں شریک ہوتے ہیں یا ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں میرا ناصحانہ مشورہ ہے کہ اس کتابچے کا مطالعہ ضرور کریں. یہ درحقیقت ’’تعارفِ قرآن‘‘ پر میرے خطابات کا لازمی نتیجہ اور ان کا ضروری تکملہ ہے.

یہ بھی جان لیجیے کہ اگر ہم یہ حقوق ادا نہیں کرتے تو ازروئے قرآن ہماری حیثیت کیا ہے. قرآن مجید کے حقوق کو ادا نہ کرنا قرآن کو ترک کر دینے کے مترادف ہے. سورۃ الفرقان میں محمد رسول اللہ کی فریاد نقل ہوئی ہے :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
’’اور پیغمبر کہے گا کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا.‘‘

مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس آیت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھا ہے : 

’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘ اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قراء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں‘‘. بحیثیت مسلمان ہم پر قرآن مجید کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں‘ اگر انہیں ہم ادا نہیں کر رہے تو حضور کے اس قول اور فریاد کا اطلاق ہم پر بھی ہو گا. گویا کہ حضور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے خلاف مدعی کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے.

علامہ اقبال اسی آیت قرآنی کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کرتے ہیں : ؎

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی!

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!‘‘

قرآن مجید میں دو مقامات پر قرآن کے حقوق ادا نہ کرنے کو قرآن کی تکذیب قرار دیا گیا ہے. آپ لاکھ سمجھیں کہ آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ لیکن اگر آپ اس کے حقوق کی ادائیگی اپنی استعداد کے مطابق‘ اپنی امکانی حد تک نہیں کر رہے تو درحقیقت قرآن کو جھٹلا رہے ہیں. سابقہ اُمت مسلمہ یعنی یہود کے بارے میں سورۃ الجمعہ میں یہ الفاظ آئے ہیں:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ 

’’مثال ان لوگوں کی جو حاملِ تورات بنائے گئے‘ پھر انہوں نے اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اُس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو. بُری مثال ہے اُس قوم کی جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا. اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

ہمیں کانپنا چاہیے‘ لرزنا چاہیے کہ کہیں ہمارا شمار بھی انہی لوگوں میں نہ ہو جائے .
اس ضمن میں دوسرا مقام سورۃ الواقعہ کے تیسرے رکوع کی ابتدائی آیات ہیں: 
فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ 

’’پس نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی‘ اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے‘ کہ یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے‘ ایک محفوظ کتاب میں ثبت‘ جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا. یہ ربّ العالمین کا نازل کردہ ہے. پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو‘ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو؟‘‘

اس قرآن ‘ اس عظمت والی کتاب‘ جو کتاب کریم ہے‘ کتاب مکنون ہے‘ کے بارے میں تمہاری یہ سستی‘ تمہاری یہ کسل مندی‘ تمہاری یہ ناقدری اور تمہارا یہ عملی تعطل کہ تم اسے جھٹلا رہے ہو! تم نے اپنا حصہ اور نصیب یہ بنا لیا ہے کہ تم اس کی تکذیب کر رہے ہو؟ 

تکذیب اس معنی میں بھی کہ قرآن کا انکار کیا جائے‘ اسے اللہ کا کلام نہ مانا جائے اور تکذیب عملی کے ضمن میں وہ چیز بھی اس کے تابع اور شامل ہو گی جو میں بیان کر چکا ہوں. یعنی حاملِ کتابِ الٰہی ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے کہ ہم بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں. ہم میں سے ہر شخص کو ان حقوق کے ادا کرنے کی اپنی امکانی حد تک بھرپور کوشش کرنی چاہیے. 

اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات oo