عظمت ِ قرآن فی نفسہٖ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے. یہ اللہ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے. چنانچہ قرآن اللہ کی صفت ہے اور ہم اس کی عظمت کماحقہ ٗ نہیں سمجھ‘سکتے. لیکن سورۃ الحشر میں فرمایاکہ ایک مثال سے ہم تمہیں کچھ تھوڑا سا تصور دے سکتے ہیں:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱
’’اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کی خشیت سے. اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لیے تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘.

اور پہاڑ کے پھٹ جانے کا واقعہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا. حضرت موسٰی ؑ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ پردے کی اوٹ سے مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ہو رہا تھا. حضرت موسٰی ؑ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے دیداربھی حاصل ہو جائے. عرض کیا: رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ’’پروردگار! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں‘‘.فرمایا: لَنۡ تَرٰىنِیۡ ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے‘‘ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ’’لیکن اس پہاڑ پر نظر جماؤ ‘(میں اس پر اپنی ایک تجلی ڈالوں گا) پس اگر وہ (اسے برداشت کر جائے اور) اپنی جگہ پر قائم رہ جائے تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے‘‘. فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (الاعراف:۱۴۳’’چنانچہ جب اُس کے ربّ نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی ؑ غش کھا کر گر پڑے‘‘.یہ بالواسطہ مشاہدہ تھا. حضرت موسٰی ؑ نے پہاڑ پر اللہ کی تجلی کا مشاہدہ کیا‘لیکن اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہوکر گر پڑے. اس سے ذرا عظمت ِ قرآن کا اندازہ کیجیے. قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت ہے‘ اور جو اللہ کی ذات تجلی کا اثر ہے وہی اللہ کی صفت کی تجلی کا اثر ہے.