آگے چلیے. سورۃ الرحمن کی پہلی چار آیات ملاحظہ کیجیے. ان چار آیتوں میں چار چوٹی کی چیزیں بیان کی گئی ہیں. اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ یہ اللہ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ہے. عرب اس نام سے واقف نہیں تھے. سورۃ الفرقان کی آیت ۶۰ میں فرمایاگیا: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ کرو رحمن کو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے؟‘‘اللہ کو تو وہ جانتے تھے ‘ اسم ’’اللہ‘‘ ان کے ہاں ہمیشہ سے چلا آ رہا تھا‘ لیکن ’’رحمن‘‘ سے ناواقف تھے.

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اللہ کی رحمت ہے اور ’’رحمن‘‘ میں وہ رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوتی ہے‘ جس میں جوش اور ہیجان ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سب سے پیارا نام رحمن ہے. آگے فرمایا: عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ ’’سکھلایا قرآن‘‘. سارے علوم اللہ ہی نے سکھائے ہیں‘ چاہے مادّی علوم ہوں چاہے روحانی علوم ہوں‘ لیکن تمام علوم میں چوٹی کا علم قرآن کا علم ہے جو اللہ کی رحمانیت کا مظہر اتم ہے . اگلی آیت میں فرمایا:خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ ’’پیدا کیا انسان کو‘‘. اللہ تعالیٰ نے ہی تمام مخلوقات کو پیدا کیا.جنوں کو بھی اسی نے پیدا کیا‘ فرشتوں کو بھی اسی نے پیدا کیا. آسمان بنایا‘ زمین بنائی‘ پہاڑ بنائے‘ سورج‘ چاند‘ ستارے بنائے. کیا نہیں بنایا؟ لیکن جو کچھ اس نے بنایا ہے اس میں چوٹی کی مخلوق انسان ہے جو مسجودِ ملائک ہے‘ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے. آگے فرمایا: عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ ’’اسے بیان کی صلاحیت دی‘‘. تو کیا دیکھنے کی صلاحیت نہیں دی؟ سننے کی صلاحیت نہیں دی؟ ظاہر ہے انسان کو تمام صلاحیتیں اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کی ہیں‘ لیکن انسان کی سب سے اونچی صلاحیت قوتِ بیان ہے. اسی لیے انسان کو حیوانِ ناطق کہتے ہیں .تو ان چار آیات میں چوٹی کی چار چیزیں بیان کر دی گئیں.

اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ جو سب سے اونچی صلاحیت ہے یعنی بیان‘ اس کو سب سے اونچے علم ’’قرآن‘‘ پر صرف کرو. قرآن کوبیان کرو‘ قرآن کوعام کرو‘ قرآن کو پھیلاؤ . 
یہ نتیجہ حضور نے ایک حدیث میں بیان کر دیا: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور اسے سکھائیں‘‘. خود قرآن پڑھیں اور دوسروں کو پڑھائیں.یہ قرآن کی اس نعمت کو عام کرنے کے لیے تشویق و ترغیب کا انتہائی خوبصورت انداز ہے. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ’’رحمن‘‘ اس نے جو علم انسان کو دیے اس میں چوٹی کا علم ’’قرآن‘‘ اس نے جو کچھ بنایا ہے اس میں چوٹی کی تخلیق ’’انسان‘‘ انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں چوٹی کی صلاحیت ’’بیان‘‘.تو جیسے ہم کہتے ہیں توپ سے مکھی نہیں ماری جاتی‘ توپیں کسی اور کام کے لیے بنتی ہیں‘ اسی طرح تم اس قوتِ بیان کو دنیاوی چیزوں کے لیے صرف نہ کرو. دنیا کی چیزوں کی اللہ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں.

ساری دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں. اسی قوتِ بیان کے زور پر ایک شخص عوامی مقرر اور لیڈر بن جاتا ہے‘ کوئی ڈکٹیٹر بن جاتا ہے‘ ہٹلر بن جاتا ہے‘ بھٹو بن جاتا ہے. اسی قوتِ بیان سے ایک وکیل ایک ایک پیشی کے پانچ پانچ لاکھ روپے لے لیتا ہے. حالانکہ وہی قانون ان وکیلوں نے بھی پڑھ رکھا ہوتا ہے جو بے چارے جوتیاں پٹخارتے پھر رہے ہوتے ہیں اور انہیں کوئی اپنا وکیل نہیں کرتا. وہ زیادہ سے زیادہ سر‘ ٹیفکیٹ attest کر کے تھوڑے سے پیسے کما لیتے ہیں.وہی قانون اے کے بروہی اور ایس ایم ظفر نے پڑھا ہے اور اپنی قوتِ بیان کے بل بوتے پر ایک مقام حاصل کیا ہے. تو اِس قوتِ بیان کا اصل مصرف یہ ہے کہ اسے قرآن کے لیے استعمال کیا جائے.
کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ 

سورۃ الرحمن کی چار آیات کے بعد اب ملاحظہ کیجیے سورۂ عبس کی چھ آیات.فرمایا:
کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’یوں نہیں! یہ قرآن تو ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے. جو چاہے اس سے یاد دہانی حاصل کر لے. یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بہت پُرعظمت ہیں. بہت بلند مقام کے حامل‘ نہایت پاکیزہ ہیں. ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو لائق تکریم اور پاک باز ہیں‘‘.

پہلی دو آیات میں فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ‘ یہ قرآن تذکرہ ہے‘ یاد دہانی ہے. جو چاہے اس سے یاد دہانی حاصل کرے. یہ بہت اہم مضمون ہے. قرآن جس چیز کی طرف تمہیں بلا رہا ہے وہ تمہارے دل کے اندر موجود ہے. تم دنیا میں گم ہو گئے ہو اس لیے تمہیں پتا ہی نہیں کہ تمہارے پاس کتنا قیمتی ہیرا ہے. ہندی کا ایک بڑا پیارا دوہا ہے ؎ 

بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں‘ سب کی گدڑی لال
گرہ کھول جانے نہیں اس بدیے کنگال 

یعنی ’’اے بھیکؔ (شاعر کا نام) بھوکا اور محروم کوئی انسان بھی نہیں ہے‘ ہر انسان کی گدڑی کے اندر لعل موجود ہے‘لیکن جو گرہ لگی ہوئی ہے وہ کھولی نہیں جا سکتی‘ اس لیے کنگال بن گئے ہیں.‘‘ پس تمہارے اندر تو سب کچھ ہے‘ لیکن ذہول ہے‘ توجہ نہیں ہے. یہ قرآن یاد دہانی ہے.قرآن حکیم کے لیے خود قرآن میں الذّکر‘ذکریٰ اور تذکرہ جیسے الفاظ آئے ہیں. فرمایا: فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) ’’پس آپ قرآن کے ذریعے اسے یاددہانی کرائیں جو میری تنبیہہ سے ڈرے‘‘. ایسے مقامات پر تعلیم کے بجائے تذکیر کا لفظ آتا ہے.

اور یہ قرآن کتنی عظمت والا ہے؟ یہ لوحِ محفوظ میں ان صحیفوں میں درج ہے جو بہت محترم‘ باعزت اور پُرعظمت ہیں‘ بہت بلند مقام پر ہیں‘ نہایت پاک ہیں ‘ ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیںجو بہت ہی لائق تکریم اور پاک باز ہیں. یعنی یہ قرآن لوحِ محفوظ میں عالی مرتبت فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے.