اس کے بعد سورۃ الواقعہ کی آٹھ آیات کا مطالعہ کر لیجیے: فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ 

’’پس نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کے مقام کی‘ اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے‘ کہ یہ بڑی عزت والا قرآن ہے. ایک محفوظ کتاب میں ثبت ہے‘ جسے نہایت پاک مخلو ق (فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا. یہ ربّ العالمین کا نازل کردہ ہے. پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو‘ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو؟‘‘

ان آیات کا آغاز ایک بہت بڑی قسم سے ہوا. فرمایا : ’’میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کے مقام کی. اور یہ قسم بہت بڑی ہے اگر تمہیں معلوم ہوتا‘‘. تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی قسم ہے. یہ تو وقت آئے گا تو پتا چلے گا .چنانچہ آج نزولِ قرآن کے چودہ سو سال بعد ہمارے علم میں آیا ہے کہ اس کائنات میں بلیک ہولز ہیں‘ جو ستاروں کے سکڑ کر ختم ہو جانے کے نشانات ہیں. گویا ستارے ڈوب رہے ہیں‘ ان کی موت واقع ہو رہی ہے. کائنات میں کہیں ایک خلا پیدا ہوتا ہے. اس خلا کے اندر جو ویکیوم ہے اس میں کھینچنے کی اتنی طاقت ہے کہ جو ستارہ اس کے قریب سے گزرجائے اسے کھینچ کر اس قبر میں دفن کر دیتا ہے. یہ ہے وہ جگہ جہاں ستارے ڈوبتے ہیں. فرمایا اگر تم جانتے تو یہ بہت بڑی قسم ہے جو ہم نے کھائی ہے. اور یہ عظیم قسم اس بات پر کھائی جا رہی ہے کہ یقینا یہ بہت باعزت قرآن ایک چھپی ہوئی محفوظ کتاب میں درج ہے‘ جسے کوئی چھو ہی نہیں سکتا‘مگرنہایت پاک مخلوق یعنی فرشتے. یہ ربّ العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے. لوحِ محفوظ سے اس کی تنزیل ہو رہی ہے محمدٌ رسول اللہ پر.وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کے جو یہ نازل ہو رہا ہے‘ یہ اللہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے.

اس کے بعد ڈانٹ کا انداز ہے: اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾ ’’پھر کیا اس کلام سے تم لاپرواہی برت رہے ہو ؟‘‘اور سہل انگاری کر رہے ہو؟ تم نے انگریزی پڑھ لی‘ دنیا کی دوسری زبانیں سیکھ لیں‘ لیکن اتنی عربی نہیں پڑھی کہ ہمارے کلام کو سمجھ سکو. ڈاکٹری پڑھ لی اور اس میں بیس سال لگا دیے. انجینئرنگ میں اٹھارہ سال لگادیے‘ لیکن اتنا وقت نہ نکال سکے کہ عربی پڑھتے اور قرآن کو براہِ راست اپنے قلب کے اندر اتارتے؟ وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ ’’اور اپنا حصہ تم نے بس یہی رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے پھرو؟‘‘قرآن کے ساتھ تمہاری بے اعتنائی کا یہ طرزِعمل اس کی تکذیب کے مترادف ہے. اگر تم اسے اللہ کا کلام مانتے تو یہ بے اعتنائی اور یہ بے توجہی ہو سکتی تھی؟ قطعاً نہیں!

عظمتِ قرآن کے ضمن میں مَیں نے پانچ مقامات آپ کو گِنوائے ہیں‘ جن کے درمیان بڑی حسین ترتیب بن گئی ہے پہلے ایک آیت‘ پھر دو آیتیں‘ پھر چار آیتیں‘ پھر چھ آیتیں اور پھر آٹھ آیتیں. پہلی آیت میں اللہ کے کلام کی عظمت بیان ہوئی ہے جیسے کہ وہ ہے . دوسرے مقام پر قرآن کی عظمت اس کے افادے کے لحاظ سے بیان ہوئی ہے. تیسرے مقام میں اس کو عام کرنے کی ترغیب و تشویق ہے. چوتھے مقام میں کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں تذکرہ اور یاد دہانی ہے ‘ کوئی نئی شے نہیں ہے‘ تمہاری فطرت میں ہدایت موجود ہے‘ جسے وہاں سے یہ قرآن نکال کر تمہارے سامنے لاتا ہے. اور پھر پانچویںمقام پر فرمایا گیا کہ یہ کتابِ مکنون میں ثبت ہے‘ جہاں اسے کوئی چھو ہی نہیں سکتاسوائے فرشتوں کے جو نہایت پاک باز اور مطہر ہیں. اس آیت سے ضمنی طور پر یہ فقہی مسئلہ بھی نکالا گیا ہے کہ آپ قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے اگر آپ باوضو نہ ہوں. 

لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾ کا ایک تیسرا مطلب بھی ہے. دیکھئے‘ ایک ہے اِس قرآن کا گودا اور مغز‘ جبکہ ایک اس کا چھلکا ہے. متذکرہ بالا الفاظِ قرآنی سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا اندر پاک نہیں ہو چکا‘ جن لوگوں کا تزکیۂ نفس نہیں ہو چکا‘ وہ اس کے چھلکے ہی کے ساتھ کھیلتے رہیں گے‘ اس کے مغز تک اُن کی رسائی نہیںہو گی‘ چاہے وہ کہنے کو مفسر بن جائیں‘ جلدیں کی جلدیں لکھ دیں. غلام احمد پرویزنے ’’مفہوم القرآن‘‘ لکھ دی‘ غلام احمد قادیانی آنجہانی کے بیٹے نے تفسیر کبیر بھی لکھی تفسیرصغیر بھی‘ لیکن قرآن کے مغز تک اِن حضرات کی رسائی نہیں ہوئی . مولانا روم نے یہ بات اپنے ایک شعر میں بیان کی ہے‘ اگرچہ انداز اچھا نہیں ہے‘ لیکن بہت گہری بات کہی ہے ؎

ما ز قرآں مغزہا برداشتیم
اُستخواں پیشِ سگاں انداختیم

یعنی ہم نے قرآن سے اس کا مغز حاصل کر لیا ہے‘ ہڈی کا گودا تو ہم نے لے لیا ہے اور جو ہڈی تھی وہ کتوں کے آگے ڈال دی ہے. تو انسان قرآن کے مغز تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کا باطن پاک نہ ہو.