عظمت ِ قرآن‘ احادیثِ نبویؐ کے آئینے میں

میری آج کی گفتگو کا موضوع ’’عظمتِ قرآن بلسانِ نبوت‘‘ ہے. یعنی رسول اللہ نے قرآن کی عظمت کو کس طرح بیان کیا ہے. اس ضمن میں ایک حدیث تومیں بیان کر چکاہوں:

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے‘‘. 

یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور صحیح بخاری کی ہے.

دوسری حدیث جو میں آپ کو سنارہا ہوں یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مسلم شریف کی ہے.رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ
’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کر نے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا‘‘.

اس حدیث کو جس قدر اہمیت علامہ اقبال نے دی ہے میرے علم کی حد تک کسی اور نے نہیں دی. اس حدیث کا مفہوم اقبال اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

کہ وہ ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں تلوار لے کر نکلے تھے اور دنیا پر چھا گئے تھے ‘ اور تم اسی قرآن کو چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہو گئے ہو! اور اسی مضمون کو علامہ نے فارسی میں کس قدر خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ؎

خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی!

کہ اے اُمت مسلمہ! توقرآن کو ترک کرنے کے باعث ذلیل و خوار ہوئی ہے‘ لیکن توگردشِ دوراں کا شکوہ کر رہی ہے اور اپنے زوال کا سبب ’’فلک کج رفتار‘‘ کو قرار دے رہی ہے‘ حالانکہ فلک تو کسی قوم کی قسمت نہیں بدلتا. اپنی ذلت و رسوائی کے ذمہ دار تم خودہو. 

اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ 
در بغل داری کتابِ زندۂ 

اے وہ اُمت جو شبنم کی طرح زمین پر پامال پڑی ہوئی ہے اور لوگ تجھے اپنے پائوں تلے روند رہے ہیں‘ اگراب بھی تم بلندی چاہتے ہو تو جان لو کہ تمہاری بغل میں ایک زندہ کتاب (قرآن مجید) موجود ہے.