اب جو حدیث میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں یہ کلامِ نبوت کی فصاحت وبلاغت اور عذوبت کا ایک نادر نمونہ ہے.کلام کی فصاحت یہ ہوتی ہے کہ کلام واضح ہو‘ سمجھ میں آ جائے‘ اس میں کوئی ایچ پیچ نہ ہو‘ پہیلیاں بجھوانے کا انداز نہ ہو. کلام کی بلاغت یہ ہے کہ وہ قلب و ذہن تک پہنچ جائے‘ ذہن اور دل کی گہرائیوں میں اتر جائے. اور عذوبت سے مراد کلام کی مٹھاس اور شیرینی ہے. تو فصاحت‘ بلاغت اور عذوبت‘ ان تینوں اعتبارات سے رسول اللہ کی احادیث کے مجموعے میں اس حدیث کا بہت اونچا مقام ہے. 

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: 
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا‘‘: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ’’عنقریب ایک بہت بڑافتنہ رونما ہو گا‘‘. آنحضور نے جس فتنے کی پیشین گوئی فرمائی تھی وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری عہد میں رونما ہوا. یہ فتنہ ایک بدمعاش یہودی عبداللہ بن سبا کا اٹھا یاہوا تھا‘ جس میں حضرت عثمانؓ شہید ہوئے. اس کے بعد مسلسل چار سال تک جنگ ہوتی رہی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کاپورا دورِ خلافت خانہ جنگی اور فتنے کی نذر ہو گیا. جنگ جمل‘ جنگ صفین اور جنگ نہروان میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں ‘نیزوں اور تیروں سے قتل ہوئے. اس کے علاوہ اسلام جو پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا تھا‘ اس کی نشأۃِ اولیٰ کا سیلاب کسی کے روکے نہ رکتا تھا ؏ ’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا‘‘ وہ سیلِ رواں اندر کے فتنے اور خانہ جنگی نے روک دیا اور یہ معاملہ رجعتِ قہقری کا شکار ہو گیا. اس پر ایک مصری مصنف نے ’’الفتنۃ الکبرٰی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ عظیم ترین فتنہ ہے جو تاریخِ اسلامی میں ہوا ہے . حضور نے اس کی خبر اِن الفاظ میں دی: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ  ؟ ’’میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ ! اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو گا‘‘؟ ’’مَخْرَج‘‘ نکلنے کی جگہ کو کہتے ہیں. آپ نے دیکھاہو گا کہ بڑے بڑے ہالز میں باہر نکلنے کے راستوں پر سرخ لائٹ کے ساتھ ’’EXIT‘‘ لکھا ہوتا ہے. اس لیے کہ اگر کوئی دھماکہ ہو جائے یا آگ لگ جائے یا کوئی اور ایمرجنسی کی صورت پیش آ جائے تو ہال میں موجود لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ان راستوں کی طرف بھاگیں.عرب ممالک میں EXIT کی جگہ ’’مَخْرَج‘‘ لکھا ہوتا ہے. لسانِ نبوتؐ سے فتنے کی خبر سنتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے بچاؤ کے لیے مَخْرَج کا پوچھا کہ اس فتنے سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو گا؟ اس میں جو بات میرے اور آپ کے لیے قابل غور ہے وہ ہمارے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل کا بنیادی فرق ہے. اگر ہم وہاں ہوتے توپوچھتے حضور ! یہ فتنہ کیا ہو گا؟ کیسے ہو گا؟ کب آئے گا؟ کدھر سے آئے گا؟ کیوں آئے گا؟ حالانکہ ان سب سوالات کا عملی فائدہ کیا ہے؟ یہ تو سب معلومات ہیں. حضرت علیؓ نے بڑا عملی سوال پوچھا کہ اس سے بچ نکلنے کا راستہ کیا ہو گا؟ رسول اللہ نے اس کا جو جواب ارشاد فرمایا اس پر توجہ کیجیے. قَالَ: کِتَابُ اللہِ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب!‘‘فتنوں سے نکالنے والی شے اللہ کی کتاب ہو گی! 

جنگ صفین میں جب حضرت معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی تجویز کے تحت قرآن نیزے پر اٹھا دیا گیا کہ لڑنے جھگڑنے کا فائدہ نہیں ہے‘ یہ قرآن ہمارے مابین فیصلہ کرے گا‘ تو حضرت علیؓجنگ بندی پر تیار ہو گئے. حالانکہ آپؓ کے ساتھیوں میں سے بڑی تعداد نے کہا کہ علیؓ دھوکہ کھا گئے. بلکہ خوارج نے تو (معاذ اللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر اور واجب القتل قرار دے دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کو حَکَم کیسے نہ مانتے؟ انہیں تو رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ قرآن ہے.میاں بیوی میں چپقلش اِس حد تک بڑھ جائے کہ تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ: فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ (النساء:۳۵یعنی ایک حَکَم مَرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک حَکَم عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کیا جائے. چنانچہ حضرت علی اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنہما)دونوں نے اپنی اپنی جانب سے ایک ایک حَکَم مقرر کر دیا. حضرت علیؓ نے حضرت ابوموسٰی اشعریؓ اور حضرت معاویہؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو حَکَم مقرر کیا. بعض لوگ اسے حضرت علی ؓ کی سیاسی غلطی کہتے ہیں لیکن حضرت علی ؓ کے پیشِ نظر یہ حدیث ہو گی کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ قرآن ہے.