آگے فرمایا: ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ ’’یہ قرآن ایک فیصلہ کن کتاب ہے‘ یاوہ گوئی نہیں ہے‘‘.یہ شاعروں کی شاعری نہیں ہے. یہ تو قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے کرنے والی کتاب ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کے مطابق اب قوموں کی تقدیر کے فیصلے اس قرآن سے ہوں گے . اگر کوئی قوم ابھرے گی تو قرآن لے کر ابھرے گی اور گرے گی تو قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے گرے گی. یہاں آپ کسی مغالطے کا شکار نہ ہو جائیں‘ مغرب (West) ابھرا ہے تو وہ بھی قرآن کی وجہ سے ابھرا ہے. نوٹ کر لیجیے‘ اقبال نے یہ کہا ہے : 

".The inner core of the Western Civilization is Quranic"
’’مغربی تہذیب کا باطن قرآنی ہے. ‘‘
قرآن نے انسان کو توہمات سے نجات دلائی ہے. قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ آنکھوں سے کام لو‘ کانوں سے کام لو‘ دیکھو‘ مشاہدہ کرو ؎

کھول آنکھ ‘ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! 

یہ بات مستشرقین بھی تسلیم کرتے ہیں اور مغربی مفکرین بھی کہ حقیقتاً دنیا میں توہمات کو ختم کرنے والی اور انسان کے عمل کو علم کی بنیاد پر استوار کرنے والی کتاب قرآن مجید ہے. اسلام سے قبل علم کی بنیاد ارسطو کی استخراجی منطق (deductive logic) پر تھی. اسی سے گتھیوں پر گتھیاں بن بھی رہی تھیں اور سلجھ بھی رہی تھیں‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلجھتی کم ‘ الجھتی زیادہ تھیں. اسلام نے آ کر انسان کو منطق کی اس تنگ نائے سے نکالا اور اسے استقراء (induction) کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ نے تمہیں سماعت دی ہے تاکہ سنو‘ بصارت دی ہے تاکہ دیکھو‘ تمہیں تفکر و تعقل کی استعداد دی ہے تاکہ غور و فکر اور سوچ بچار کرو. تمہیں استنباط‘ استدلال اور استنتاج کی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں.یہ روحِ عصر ہے اور اس روحِ عصر کا آغاز کرنے والا قرآن ہے. یورپ نے اسی کو اختیار کیا اور وہ بامِ عروج پر پہنچ گئے. اگرچہ اس میں انہوں نے بہت سی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں‘ وہ ایک علیحدہ مضمون ہے‘ لیکن مغربی تہذیب کے باطن (inner core) کے بارے میں علامہ کہتے ہیں کہ یہ قرآنی ہے.البتہ اس کے ظاہر کے بارے میں اقبال نے ’’The dazzling exterior‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ یہ بڑی چکاچوند کا حامل ہے ؎ 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

ہمار ے نوجوان یورپ اور امریکہ میں جا کر اسی ظاہری چکاچوند سے مبہوت ہو جاتے ہیں‘ لیکن علامہ کہتے ہیں ؎ 

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ حجاز و حولِ قدس!

اس شعر کے دوسرے مصرع میں مَیں نے کچھ لفظی تصرف کیا ہے . بہرحال قرآن کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ ’’یہ ایک فیصلہ کن کتاب ہے‘ یاوہ گوئی نہیں ہے‘‘.سورۃ الطارق میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ ’’بے شک یہ قرآن دوٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے‘ یہ ہنسی کی اور بے فائدہ بات نہیں ہے‘‘.یہی بات رسول اللہ نے اس حدیث مبارک میں ارشاد فرمائی. 

حدیث کے اگلے الفاظ ملاحظہ کیجیے. دیکھیے فصاحت‘ بلاغت اور عذوبت کے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں کس قدر غنائیت ہے. فرمایا: 
مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ ’’جو شخص اپنے تکبر کی وجہ سے اس قرآن کو ترک کر دے گا اللہ اسے پیس کر رکھ دے گا‘‘.اگرچہ قرآن کو ترک ہم نے بھی کیا ہے لیکن تکبر کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ اپنی کم ہمتی کی وجہ سے کیا ہے. قرآن ترک کرنے کے مجرم تو ہم بھی ہیں‘ لیکن ہم نے قرآن کے خلاف تکبر نہیں کیا ہے. یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جو کوئی جابر و سرکش اپنی سرکشی کے قہر اور جوش میں آ کر اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر قرآن کو ترک کرے گا اللہ اسے پیس کر رکھ دے گا.