آگے پھر حدیث کے تین ٹکڑے فصاحت و بلاغت اورعذوبت و غنائیت کی بہترین مثال ہیں. فرمایا: وَھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ ‘ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ شاعری نہیں ہے‘ لیکن آزاد شاعری سے ملتا جلتا انداز ہے. وَھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ ’’یہی ہے اللہ کی مضبوط رسّی‘‘. سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں ارشاد ہوا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ ’’اللہ کی رسّی کو مل جل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں مت پڑو‘‘. لیکن وہ اللہ کی رسّی کون سی ہے؟ اسے قرآن میں واضح نہیں کیا گیا‘ بلکہ اس کی صراحت حدیث سے ہوتی ہے. حدیث سے ناواقف لوگ ایسی آیات کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے.

آپ کو یاد ہوگا کہ جب۱۹۷۴ء میں پاکستان میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس ہو رہی تھی تو جگہ جگہ اس آیت کے بینر لگے ہوئے تھے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪. ہر رکشا اور ٹیکسی پر بھی یہی آیت لکھی ہوئی تھی. اُن دنوں میں اپنی ایک کتاب کی طباعت کے سلسلے میں مکتبہ جدید پریس گیا تو وہاں آزاد کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ آئے ہوئے تھے جو کمیونسٹ تھے. انہوں نے بڑی دریدہ دہنی سے کہا کہ یہ کیا مہمل کلام ہے؟ کہاں ہے اللہ کی رسّی جسے مل کر تھامنا ہے؟ کہاں لٹکی ہوئی ہے وہ رسّی؟ دکھاؤ مجھے! یہ اصل میں حدیث سے ناواقفیت ہے. اس لیے کہ قرآن مجید میں اگر کوئی شے تشریح طلب ہو تو اُس کو واضح کرنا حضور کا فرضِ منصبی ہے. منکرینِ حدیث تو حضور کا یہ حق بھی تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ آپؐ کا فرضِ منصبی ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل:۴۴’’اور (اے نبی!) ہم نے آپ پر یہ ذکر (قرآن حکیم) نازل کیا تاکہ آپ واضح کر دیں اس کو لوگوں کے لیے جو اُن کی طرف نازل کیا گیاہے‘‘. تو آپؐ نے واضح فرما دیا کہ: وَھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ ’’یہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘‘. اس کو پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے. خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: 

وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللہِ (مسلم) 
’’اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے‘ وہ کتاب اللہ ہے‘‘. 

ایک اور حدیث میں ہے :
کِتَابُ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ (الترمذی)
’’اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا) جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ایک رسّی ہے‘‘.

اس ضمن میں ایک اور حدیث بڑی ہی پیاری ہے. حضور اپنے حجرے سے برآمد ہوئے‘ دیکھا کہ مسجد کے ایک کونے میں کچھ لوگ بیٹھے قرآ ن مجید کا مذاکرہ کر رہے ہیں‘ سمجھ رہے ہیں‘ سمجھا رہے ہیں‘ تو آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار ظاہر ہوئے‘ آپؐ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: 
اَلَسْتُمْ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنـِّیْ رَسُوْلُ اللہِ وَھٰذَا الْقُرْآنَ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللہِ؟ ’’کیا آپ لوگ اس کے گواہ نہیں ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں‘ اور یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ سب صحابہؓ نے کہا : بَلٰی یَارَسُوْلَ اللہِ ’’کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!‘‘ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور یہ کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے. اب آپ نے فرمایا: فَاسْتَبْشِرُوْا فَاِنَّ الْقُرْآنَ طَرَفُـہٗ بِیَدِ اللہِ وَطَرَفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ ’’پس تم خوشیاں مناؤ ‘ اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘.