زیر مطالعہ حدیث میں آگے فرمایا: وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ’’اور یہی پُرحکمت ذکر ہے‘‘. قرآن اپنے آپ کو ’’الذکر‘‘ کہتا ہے ‘ لیکن تم نے ذکر کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں. سب سے مضبوط اور مستحکم ذکر یہ قرآن ہے‘ لیکن اس پر توجہ ہی نہیں‘ جبکہ ذکر و اذکار اور اوراد ووظائف کے مجموعے توجہات کا مرکز بنے ہوئے ہیں.

دعا کے بارے میں رسول اللہ کا ارشاد ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (ترمذی) یعنی ’’دعا عبادت کا جوہر ہے‘‘. بلکہ یہاں تک فرمایا : اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (ترمذی) یعنی ’’دعا ہی تو عبادت ہے‘‘. لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَمَسْاَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَا اُعْطِی السَّائِلِیْنَ ’’جو شخص قرآن کی (تلاوت اور درس و تدریس کی) مصروفیت کی وجہ سے میرا ذکر نہ کر سکے اور مجھ سے دعا نہ کر سکے میں اُسے اس شے سے افضل عطا کرتا ہوں جو میں دعا کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں‘‘. اس حدیث کے اگلے الفاظ ہیں : وَفَضْلُ کَلَامِ اللہِ عَلٰی سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللہِ عَلٰی خَلْقِہٖ (ترمذی)’’اور اللہ کے کلام کو جملہ کلاموں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر‘‘.