وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ ’’اور علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہو سکیں گے‘‘. سیرہونا کس کو کہتے ہیں؟ آپ نے کھانا اتنا کھا لیا کہ پیٹ بھر گیا اور آپ سیر ہو گئے. اب آپ کے سامنے کوئی بہترین ڈش بھی لے آئے اور تھوڑا سا کھانے کی فرمائش کرے تو آپ کی طبیعت آمادہ نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ آپ سیر ہو چکے ہیں. لیکن قرآن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہوں گے. اس پر غور کرتے رہیں‘ تدبر کرتے رہیں‘ پڑھتے رہیں‘ لیکن قرآن سے سیر نہیں ہوں گے. یہ اس کا اعجازہے. 

وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ ’’اور تکرارِ تلاوت سے اس پر کوئی باسی پن طاری نہیں ہو گا‘‘.دنیا کی کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے. آپ نے کوئی کتاب ایک دفعہ پڑھی تو اب دوسری دفعہ پڑھنے کو جی نہیں چاہے گا. اور اگر دوسری دفعہ پڑھ لی تو اب اسے دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہے گا. لیکن یہ قرآن کا اعجازہے کہ اسے پڑھتے رہیے‘ پڑھتے رہیے‘ سینکڑوں دفعہ پڑھ جایئے‘ہر دفعہ آپ کو نئی چیزیں ملیں گی‘ نئے نئے نکتے ملیں گے. امام شافعیؒ اصولِ فقہ کے امام تھے. ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فقہ کے چار مآخذ قرآن‘ سنت‘ اجماع اور قیاس کے لیے قرآن سے دلائل جمع کر رہے تھے‘ لیکن اجماع کے لیے انہیں قرآن سے کوئی دلیل نہیں مل رہی تھی. اس کے لیے انہوں نے تین سو مرتبہ شروع سے آخر تک قرآن پڑھا‘ لیکن دلیل نہیں ملی. اس کے بعد جب تین سو ایک مرتبہ پڑھ رہے تھے تو سورۃ النساء کی آیت ۱۱۵ کے ان الفاظ پر توجہ مرتکز ہو گئی : ....وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾٪ ’’اورجو کوئی مسلمانوں کے راستے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا تو ہم اس کو اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے‘ اور وہ بدترین جائے قرار ہے‘‘. مسلمانوں کا راستہ وہ ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہو جائے. کیونکہ ایک اور حدیث میں آیا ہے : اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ (ابن ماجہ) ’’یقینا میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی‘‘.