تقریر نمبر ۱: پہلا گروپ الفاتحۃ…تا… المائدۃ

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ … بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وہ ماہِ رمضان مبارک ہی کی ایک بابرکت اور قابل قدر رات تھی جس میں اب سے ایک ہزار چار سو دس سال قبل خالقِ ارض و سماء تبارک و تعالیٰ کا ازلی اور ابدی و سرمدی کلام لوحِ محفوظ سے بواسطہ ٔ جبریلِ امین علیہ السلام قلب ِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام پر نوعِ انسانی کے لیے واضح اور روشن ہدایت بن کر نازل ہونا شروع ہوا. پھر وہ بھی رمضان ہی کا بابرکت مہینہ ہوتا تھا جس میں ہر سال اُس وقت تک کے نازل شدہ کلامِ الٰہی کا مذاکرہ آنحضور حضرت جبریل علیہ السلام سے کیا کرتے تھے. تاآنکہ اپنی حیاتِ دُنیوی کے آخری سال یعنی رمضان ۱۰ھ میں آنحضور نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ پورے کلامِ الٰہی کا مذاکرہ دوبار کیا اور اس طرح اسے ایک مرتب و مدوّن قرآن کی صورت میں اُمت کے حوالے فرما دیا. اور پھر دورِ خلافت راشدہ ہی میں‘جو دراصل خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تھی‘ اس مرتب و مدوّن قرآن نے ایک باقاعدہ مصحف کی صورت اختیار کر لی‘ جس کے کروڑہا کروڑ نسخے دنیا میں پہلے قلم سے لکھے گئے اور ہر دَور کی اعلیٰ سے اعلیٰ طباعت سے مزین ہو کر تیار ہوتے رہے‘ تاآنکہ آج بلا مبالغہ اربوں کی تعداد میں صفحہ ٔ ارضی پر موجود ہوں گے. اور اسی پر اِکتفا نہیں‘اللہ کا یہ کلام کروڑوں خوش قسمت انسانوں کے سینوں میں محفوظ رہا جو اِس کی حنا بندی اپنے خونِ جگر سے کرتے رہے ‘اور چودہ سو برس سے ہر سال رمضان المبارک میں روئے ارضی کے ایک بڑے حصے پر گویا اُس کا سالانہ جشن منایا جاتا ہے‘ جبکہ حفاظ پورے ذوق و انہماک کے ساتھ اپنا حفظ تازہ کرتے ہیں اور عُشاق کروڑوں کی تعداد میں اُن کے پیچھے صف بستہ ہو کر نزولِ کلامِ ربانی سے اپنے قلوب کی مردہ زمینوں کو ازسرِ نو زندہ کرتے ہیں.بقول علامہ اقبال : ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف