مصحف کی پہلی یا افتتاحی سورت سورۃ الفاتحہ ہے جسے خود قرآن حکیم ہی نے سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ کا خطاب بھی دیا اور الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ بھی قرار دیا. اس کی حیثیت قرآن کے دیباچے اور مقدمے کی بھی ہے اور اُس کے فلسفہ و حکمت کے خلاصے اور لب لباب کی بھی. اس کا اُسلوب دُعائیہ ہے اور اس میں گویا فطرتِ انسانی کی ترجمانی کی گئی ہے. چنانچہ اس کے تین حصوں میں سے پہلے حصے میں ان حقائق کا بیان ہے جن تک فطرتِ صحیحہ اور عقلِ سلیم انسان کو پہنچا دیتی ہیں‘ یعنی اللہ کی توحید‘اُس کی ربوبیتِ عامہ‘اُس کی رحمت کا جوش و خروش اور ہمہ گیری و پائیداری اور اُس کی جزا و سزا‘جس کے فیصلے کے لیے ایک دن معین ہے‘ جب اختیارِ کلی صرف اُسی کے ہاتھ میں ہوگا دوسرے حصے میں بات آگے بڑھتی ہے اور بندے گویا اللہ کے رُوبرو ہو کر اُس سے عہد ِوفا اُستوار کرتے ہیں کہ: ’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے!‘‘ اور آخری حصے میں گویا عقل انسانی اعتراف کرتی ہے کہ رُشد و ہدایت اور فوز و فلاح سے ہمکنار کرنے والے صراطِ مستقیم کی تعیین میرے بس میں نہیں‘ اس کے لیے انسان وحی و رسالت ہی کا محتاج ہے. چنانچہ ہم گویا گھٹنے ٹیک کر استدعا کرتے ہیں کہ: ’’اے رب! ہمیں ہدایت بخش اُس سیدھی راہ کی جس پر تیرے وہ بندے چلے جو تیرے انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے اور جو نہ مغضوب ہوئے نہ گمراہ!‘‘ سورۃ الفاتحہ کے بعد پورا قرآن حکیم بالعموم اور اُس کی پہلی چار طویل مدنی سورتیں بالخصوص گویا اس دُعا کا جواب ہیں جس میں اُس صراطِ مستقیم کی تفصیلی نشاندہی کر دی گئی ہے جس کا ذکر سورۃ الفاتحہ کے آخری حصے میں کیا گیا تھا.