ان میں سے پہلی دو سورتیں یعنی سورۃ البقرۃ اور سورۂ آلِ عمران جنہیں آنحضور نے ’’الزَّھرَاوَین‘‘ کا خطاب دیا ہے ‘یعنی دو انتہائی روشن اورتابناک سورتیں‘ایک نہایت حسین و جمیل جوڑے کی صورت میں ہیں‘ جن میں بہت سے اعتبارات سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے.مثلاً یہ کہ دونوں کا آغاز حروفِ مقطعات الٓ مٓ اور کتابِ الٰہی کی عظمت و جلالت ِ شان کے بیان سے ہوتا ہے اور دونوں کے اختتام پر انتہائی جامع دعائیں ہیں‘ اور بہت سے پہلوئوں سے ان دونوں کے مابین مضامین کی حد درجہ حکیمانہ تقسیم بھی پائی جاتی ہے‘ مثلاً جہاں سورۃ البقرۃ میں اہل کتاب میں سے یہودسے مفصل خطاب کیا گیا ہے وہاں سورۂ آلِ عمران میں نصاریٰ سے گفتگو کی گئی ہے. اسی طرح سورۃ البقرۃ میں ایمان کے مباحث پر زیادہ زور ہے اور سورۂ آل عمران میں اسلام کے مباحث پر.اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں سورۃ البقرۃمیں جہاد بالمال یا اِنفاق فی سبیل اللہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور سورۂ آل عمران میں قتال فی سبیل اللہ پر. وقِس علٰی ھٰذا! 

ان میں سے پہلی اور طویل ترین سورت یعنی سورۃ البقرۃ جو ۲۸۶ آیات اور چالیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جسے آنحضور نے قرآنِ حکیم کے لیے ’’ذروۃ السنام‘‘ یعنی بمنزلہ ٔ چوٹی یا نقطہ ٔ‘ عروج قرار دیا ہے‘ ماسوائے چند آیات کے پوری کی پوری آنحضور پر ہجرت کے فوراً بعد سے لے کر رمضان ۲ھ میں غزوۂ بدر سے پہلے تک کے عرصے میں جستہ جستہ نازل ہوئی.

یہ سورۂ مبارکہ تقریباً دو مساوی حصوں پر منقسم ہے. پہلے حصے میں‘ جو ۱۵۲ آیات اور ۱۸ رکوعوں پر مشتمل ہے ‘خطاب کا رُخ براہِ راست یا بالواسطہ اہل کتاب‘بالخصوص یہود کی طرف ہے‘ اور دوسرے حصے میں جو بقیہ ۱۳۴ آیات اور ۲۲ رکوعوں پر مشتمل ہے ‘خطاب کا رُخ اُمت ِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی جانب ہے.

ّپہلا حصہ پھر تین اجزاء پر مشتمل ہے اور اس میں عجیب توازن پایا جاتا ہے کہ درمیان میں دس رکوع وہ ہیں جن میں یہود کو براہِ راست خطاب کیا گیا ہے‘اور ابتدا میں اور اختتام پر چار چار رکوع وہ ہیں جن میں روئے سخن اُن کی جانب تو ہے لیکن بطرزِ خفی و لطیف! ویسے پہلے چار رکوع نہ صرف اس سورۂ مبارکہ بلکہ پورے قرآن مجید کے مضامین کے لیے نہایت جامع تمہید بھی قرار دیے جا سکتے ہیں. اور آخری چار رکوعوں کے مضامین کی نوعیت گویا شہنشاہِ ارض و سما کے اس فرمان کی ہے کہ امامت الناس کی وراثت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک شاخ یعنی بنی اسرائیل سے سلب کر کے دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل کو منتقل کی جاتی ہے‘ جس میں آنحضور کی بعثت ہوئی اور جس سے اُمت مسلمہ کا اصل مرکز یعنی Nucleus فراہم ہوا اور اس انتقالِ منصب ِامامت کی علامت (symbol) کی حیثیت اختیار کر لی تحویل قبلہ کے واقعے نے!

اس اجمال کے بعد سورۃ البقرۃ کے نصف اوّل کے مضامین پر قدرے تفصیلی نگاہ بھی ڈال لیجیے.
اس کے پہلے چار تمہیدی رکوعوں میں بھی مضامین کے اعتبار سے دو دو رکوعوں میں تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہوا جو اِس سورۂ مبارکہ کے نزول کے وقت بالفعل موجود تھے. ایک وہ متقین و مُفلحین جو قرآن مجید کی ہدایت سے صحیح طور پر مستفید ہوئے. اُن کے اوصاف کے بیان کے ضمن میں اِن شرائط کی وضاحت بھی ہو گئی جو اِس کتاب کی ہدایت سے بہرہ مند ہونے کے لیے لازمی و لابدی ہیں. دوسرے وہ جو کفر پر اس طرح اَڑ گئے کہ اُن کے حق میں کوئی اِنذار یا تبلیغ اور نصیحت مفید نہ رہی. اس طرح گویا یہ قاعدہ کلیہ بیان کر دیا گیا کہ ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب انسان اپنی شامتِ اعمال سے اپنے اوپر ہدایت کا دروازہ مستقلاً بند کرا لیتا ہے. تیسرے وہ جو مدعی تو ایمان کے تھے لیکن تھے حقیقتاً اس سے بالکل محروم. اس تیسری قسم کے انسانوں کا ذکر سب سے زیادہ تفصیل سے کیا گیا‘ اس لیے کہ اس میں جس کردار کی نشاندہی بغیر نام لیے کی گئی اس میں اگرچہ پیشگی طور پر مُنافقین کے کردار کی عکاسی بھی آ گئی‘ لیکن اصلاً یہود کے گھناؤ نے کردار کو پورے طور پر بے نقاب کر دیا گیا. 

اس کے بعد کے دو رکوعوں یعنی تیسرے اور چوتھے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ ہے‘ تیسرے رکوع میں مذہبی فکر کی سطح پر اور چوتھے رکوع میں فلسفہ و حکمت کی سطح پر. چنانچہ تیسرے رکوع کا آغاز توحید اور بندگی ٔربّ کی دعوت سے ہوا اور اس کے بعد قرآن کے اعجاز کے ضمن میں نبوت و رسالت اور پھر جنت و دوزخ کے ضمن میں ایمان بالآخرت کا ذکر آ گیا اور اس طرح ایمانیاتِ ثلاثہ کی وضاحت ہوگئی . چوتھے رکوع میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اُن کے شرفِ خلافت اور خِلعتِ علم سے نوازے جانے اور مسجودِ ملائک قرار پانے اور پھر ابلیس لعین کی عداوت و اغواء سے جنت سے نکالے جانے کے ضمن میں گویا انسان کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اُس کے کش مکش خیر و شر میں مبتلا ہونے کا ذکر ہے‘ جس میں انسان کو مستقل طو رپر شیطان کے اِضلال و اِغواء کا سامنا رہتا ہے اور جس سے تحفظ دامنِ رسالت(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کو تھامے بغیر ممکن نہیں. بقول شاعر : ؎ 

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ! 

بنظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حصے میں بھی یہود کے کردار کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جس طرح ابلیسِ لعین حضرت آدم علیہ السلام کے اعزاز و اکرام سے جل بھن کر کباب ہو گیا تھا اور اس نے اُن کے ازلی و ابدی دشمن کی حیثیت اختیار کر لی تھی‘ اسی طرح یہ مدعیانِ علم و فضل اور حاملانِ دین و شریعت بھی محمد ِعربی کے اعزاز و اکرام پر حسد کی آگ میں جل اُٹھے ہیں اور آپ کو خوب جاننے اور پہچاننے کے باوجود مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں اور اِس عداوت اور دشمنی میں مشرکین سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں.
پانچواں رکوع یہود کو دعوت پر مشتمل ہے اور اُس کی سات آیات اس اعتبار سے انتہائی اہم ہیں کہ اس میں انہیں نہایت بلیغ پیرائے میں آنحضور اور قرآن پر ایمان کی دعوت دی گئی ہے ‘اور دعوت کی مناسبت سے اُسلوب ایسا مؤثر اختیار کیا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں قبولِ حق کی ذرّہ برابر استعداد بھی موجود ہو تو وہ فوراً تسلیم کر لے اور لبیک کہتا ہوا حاضر ہو جائے.
چھٹے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کے آغاز تک نورکوعوں سے زائد پر مشتمل ایک مفصل فردِ قرار دادِ جرم ہے جو یہود پر عائد کی گئی‘ اور جس کی پاداش میں اُن سے وراثت ِ ابراہیمی سلب کر لی گئی اور امامت الناس کا منصب چھین لیا گیا. اس مفصل فردِ قراردادِ جرم میں ان کی تاریخ کے بعض اہم واقعات کا بیان بھی ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اس نعمت کی قدر ابتدا ہی سے نہ کی اور اس منصب کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہی ضائع کر دیا‘ اور ان جملہ اِعتقادی اور عملی و اخلاقی گمراہیوں کی تفصیل بھی ہے جن میں اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے. اس حصے کا ایک خاص پہلو اور بھی ہے جو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ‘یعنی اس میں نہ صرف یہ کہ ماضی کی تاریخ بیان ہوئی ہے بلکہ علامہ اقبال کے الفاظ میں : ’’ آنے والے دَور کی دھندلی سی اک تصویر‘‘ بھی موجود ہے. اس لیے کہ آنحضور کے اس قول کے مصداق کہ: 
لَــیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اٰتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ (۱)

’’میری اُمت پر بھی وہ سب کچھ وارد ہو گا جو بنی اسرائیل پر ہوا ‘بالکل اسی طرح جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے سے مشابہ ہوتا ہے.‘‘
بعد میں خود اُمت ِ مسلمہ میں وہ ساری اخلاقی و عملی اور اعتقادی یا نظری و فکری گمراہیاں پیدا ہو کر رہیں ‘جیسے بجائے ایمان اور عمل کے مدارِ نجات نسلی یا گروہی نسبتوں کو قرار دے دینا‘ جس کا ذکر ہے آیت ۶۲ میں ‘یا آخرت کی جواب دہی کے اِحساس کو زائل کر دینا (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الایمان عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ. اپنی امتیازی حیثیت اور اللہ کے چہیتے اور اُس کے رسولوں کے نام لیوا ہونے کے زعم یا کسی سفارش کی اُمید ِموہوم اور امداد کی غلط توقع کی بنا پر ‘جیسے کہ واضح کیا گیا آیات ۴۸و۱۲۳ میں‘ یا عمل کے بجائے تمناؤں کے سہارے جینا ‘جس کا ذکر ہے آیت ۸۰ میں‘ اور جدوجہد اور سعی و عمل کے بجائے اصل دلچسپی رکھنا عملیات یا سحر و کہانت اورٹونوں ٹوٹکوں سے ‘جس کا ذکر ہے آیت ۱۰۲ میں‘یا کتابِ الٰہی کو بھی یا تو بالکل پیٹھ پیچھے پھینک دینا اور کلیتہً نظر اندازکر دینا ‘جس کا ذکر ہے آیت ۱۰۱ میں‘ یا اُس کے حصے بخرے کر دینا کہ شریعت کا ایک جزو تو واجب العمل قرار پائے اور دوسرے جزو کو حیلوں بہانوں سے ساقط العمل کر دیا جائے‘ جس کا حد درجہ زور دارتہدیدی انداز میں ذکر ہے آیت ۸۵ میں‘ اور نتیجتاً مبتلا اور مغلوب ہو جانا حیاتِ ارضی کی محبت میں‘اور خواہاں ہونا طولِ حیاتِ دُنیوی کا‘جس کا ذکر ہے نہایت مذمت آمیز انداز میں آیات ۹۴ تا ۹۶ میں‘اور بٹ جانا فرقوں اور گروہوں میں‘ جن کی ساری مساعی وقف ہو ایک دوسرے کی تکذیب اور تردید ہی میں‘ جس کی جانب اشارہ کیا گیا آیات ۱۱۱ تا ۱۱۳ میں اور ان سب کی پاداش میں باطنی طور پر مبتلا ہو جانا اُس قساوتِ قلبی میں جس کا حددرجہ یاس آمیز انداز میں ذکر کیا گیا آیت ۷۴ میں‘ اور ظاہری طور پر ہدف بن جانا اللہ کے غضب کا اور مبتلا ہونا ذلت و مسکنت اور محکومی و رُسوائی میں ‘جس کا انتہائی عبرت انگیز الفاظ میں ذکر ہوا آیت ۶۱ میں!

فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ ! 

آخری حصے کے پہلے دو رکوعوں یعنی پندرہویں او ر سولہویں رکوعوں میں پہلے بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں کے جد ِامجد یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کو عطاکیے جانے والے منصب امامت الناس کا ذکر ہے. پھر تعمیر کعبہ اور اُس دعا کا ذکر ہے جو اُس کی تعمیر کے وقت معمارانِ حرم یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے لبوں پر جاری تھی: 

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ (آیت ۱۲۹)
’’اے ربّ ہمارے!ہماری نسل میں سے ایک رسول اٹھائیو‘ جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور اُن کا تزکیہ کرے.‘‘

اس کے بعد ایک بار پھر یہود کو نہایت مؤثر انداز میں زجر و توبیخ بھی کی گئی اور آخر میں دو رکوعوں یعنی سترہویں اور اٹھارہویں رکوعوں میں اعلان کر دیا گیا کہ یہود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امامت الناس اور حاملِ کتابِ الٰہی و شریعتِ خداوندی ہونے سے محروم کر دیے گئے اور اب ’’شہادت علی الناس‘‘ کا یہ منصب اُمت ِمحمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما دیا گیا. اور اس عظیم تبدیلی کی علامت کے طور پر ابدالآباد تک اہل ایمان و یقین اور اربابِ عرفان و آگہی کا قبلہ بنی اسرائیل کی عظمت و سطوتِ پارینہ کی یادگار اور اُن کے دینی و مذہبی مرکز یعنی بیت المقدس کے بجائے اس گھر کو قرار دے دیا گیا جو: اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ کا مصداق بھی ہے اور مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ کا بھی ‘اور جس کی تعمیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی شرکت کی تھی اور جسے اب اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے.

اس حصے میں اس اہم تبدیلی کے اعلان کے ساتھ ہی اُمت ِمسلمہ کو متنبہ کر دیا گیا کہ اس منصب پر فائز ہونا جہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہے وہیں ایک بھاری ذمہ داری اور نازک فرض کی حیثیت بھی رکھتا ہے‘ جس کے لیے وہ اللہ کے یہاں مسئول ہوں گے. اس لیے کہ ان کی غرضِ تأسیس یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ نے اللہ کے دین کی گواہی اُن کے سامنے قولاً و عملاً دی اور اس میں نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا لحاظ کیا نہ مخالفت کرنے والے کی مخالفت کا‘ اور اس طرح اللہ کی حجت ان پر قائم کر دی‘ اسی طرح اب ان کی ذمہ داری ہے کہ اس دین کی گواہی دیں اپنے قول سے بھی اور عمل سے بھی‘ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی ‘پوری دنیا اور تمام نوعِ انسانی کے سامنے‘ اور اللہ کی حجت قائم کریں اُن پر اور ساتھ ہی واضح کر دیا کہ آنحضرت کی بعثت اصل میں اسی دُعائے ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا ظہور ہے جس کاذکر پہلے آ چکا ہے‘ اور اِن کا عملی طریق کار بھی وہی ہے جس کا ذکر اس دُعا میں کیا گیا تھا.یعنی: ’’اے مسلمانو! ہم نے بھیج دیا ہے تم میں اپنا رسول خود تم ہی میں سے‘ جو پڑھ کر سناتا ہے تمہیں ہماری آیات اور تزکیہ کرتا ہے تمہارا اور تعلیم دیتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت کی…‘‘ (آیت ۱۵۱) اور اب تمہارا کام یہ ہے کہ ہمارے اس احسان کو یاد رکھو اور اس کا حق ادا کرو‘یعنی یہ کہ کتاب و حکمت کے وارث ہونے کی ذمہ داریوں کو ادا کرو.