عقائد و ایمانیات کے ذیل میں سب سے پہلے آیۃ الکرسی کا ذکر مناسب ہے‘جسے آنحضور نے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت قرار دیا ہے ‘اور اس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ توحید فی الصفات کے ضمن میں اس آیۂ مبارکہ کو وہی مقام حاصل ہے جو توحید فی‘الذات کے ذیل میں سورۃ الاخلاص کو!
ارشاد ہوتا ہے:

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ﴿۲۵۵﴾ 

’’اللہ (ہی معبودِ برحق ہے) اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا‘ نہ اُس کو اُونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیندـ .جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اُسی کی ملکیت ہے. کون ہے جو اُس کے حضور اُس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے؟ وہ جانتا ہے جو کچھ اُن کے سامنے ہے اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہے. اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو وہ چاہے.اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر حاوی ہے‘ اور ان کی حفاظت اس پر ذرا بھی گراں نہیں ‘اور وہ بلند و عظیم ہے.‘‘

توحید کے ضمن میں سورۃ البقرۃ کا بیسواں رکوع بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ‘جس میں توحید کی آیاتِ آفاقی کا ذکر بھی تفصیل سے ہے اور توحید کا اصل حاصل اور لب لباب بھی بیان کر دیا گیا ہے‘یعنی یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جملہ موجودات سے محبوب تر اور عزیز تر ہو جائے اور اللہ ہی انسان کا مطلوب و مقصودِ اصلی بن جائے.

فلسفہ و حکمت دین کے اعتبار سے سورۃ البقرۃ کے بائیسویں رکوع کی پہلی آیت یعنی آیۃ البر بھی قرآن حکیم کی عظیم ترین آیات میں سے ہے‘ جس میں بر و تقویٰ کے ایک غلط تصور کی نفی کر کے ان کی اصل حقیقت واضح کر دی گئی ہے. چنانچہ ان کی رُوح کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے‘اور اُن کے مظاہر کی تفصیل بھی ان کی نسبت ِ باہمی کی وضاحت کے ساتھ کر دی گئی ہے.ارشاد ہوتا ہے:

’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنا رُخ مشرق و مغرب کی طرف پھیر دو‘بلکہ اصل نیکی (اس کی ہے) جو ایمان لایا اللہ پر‘ قیامت کے دن پر‘ فرشتوں پر ‘کتابوں پر اور انبیاء پر ‘اور دیا اُس نے مال اس کی محبت کے علی الرغم رشتہ داروں کو ‘یتیموں کو ‘ محتاجوں کو ‘مسافر کو ‘ سائلوں کواور گلو خلاصی کرانے کے لیے‘ اور قائم کی اُس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ.اور پورا کرنے والے اپنے عہد کے جبکہ کوئی معاہدہ کر لیں. اور خصوصاً صبر کرنے والے فقر و فاقہ پر اور مصائب و تکالیف پر اور جنگ و قتال کے وقت.یہی لوگ ہیں حقیقتاً راست باز اور یہی ہیں واقعتہً متقی و پرہیز گار.‘‘

ایمان کے ذیل میں اُمورِ ایمانیہ کی تفصیل آیۂ برّ میں بھی ضمناً آ گئی ہے اور آیت ۲۸۵ میں بھی‘ جو(صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق) آخری آیت یعنی آیت ۲۸۶ کے ساتھ ہی آنحضور کو معراج میں عطا ہوئی تھی.