سورۃ البقرۃ کے نصف ِثانی کے مضامین کی دوسری لڑی دین حق کے غلبے کی سعی و جہد اوراس کے لیے ترغیب و تشویق پر مشتمل ہے. اور اس کے بھی ‘جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ دو جزو ہیں. ۱) ایک جہاد بالمال یا انفاق فی سبیل اللہ. یعنی اللہ کے پیغام کی نشر و اشاعت‘ قرآن مجید کے علم و حکمت کی تعلیم و تشہیر اور اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد میں مال صرف کرنا‘ جس کی تاکید ویسے تو اس سورۂ مبارکہ کے نصف ثانی میں از اوّل تا آخر رچی بسی ہوئی ہے. چنانچہ آیات ۱۹۵۲۱۵۲۱۹۲۴۵اور ۲۵۴ میں بتکرار و اِعادہ اس کا ذکر موجود ہے. لیکن آیات ۲۶۱ تا ۲۷۴ یعنی رکوع ۳۶ اور ۳۷(اور رکوع ۳۸ کی پہلی آیت) تو اس موضوع پر پورے قرآن مجید میں ’’ذَرْوَۃُ السَّنَامِ‘‘ یعنی چوٹی یا نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتے ہیں.
۲) دوسرا قتال فی سبیل اللہ ‘یعنی اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کفار سے جنگ ‘جس کا منتہائے مقصود ہے درجۂ شہادت ‘بقول علامہ اقبال: ؎ 

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

چنانچہ سورۃ البقرۃ کے نصف ثانی کا آغاز ہی اس درجۂ شہادت اور اس کے مرتبہ و منزلت کے بیان سے ہوا جو آیات ۱۵۴ تا ۱۵۷ پر پھیلا ہوا ہے. یعنی ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو ‘بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے. بے شک ہم تمہارا امتحان لیں گے‘کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں ‘جانوں اور پھلوں کی کمی سے .اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنا دو. جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور یقینا اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں. یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے ربّ کی عنایتیں ہیں اور رحمت‘اور یہی لوگ راہ یاب ہونے والے ہیں.‘‘

پھر باقاعدہ حکمِ قتال آیا جو آیات ۱۹۰ تا ۱۹۴ پر پھیلا ہوا ہے. گویا ترتیب مصحف میں حج کے احکام سے متصلاً قبل ہے‘ جس سے اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے کہ اس کا اوّلین ہدف مقاماتِ حج یعنی حرم کو مشرکین کے تسلط سے نجات دلانا ہے. لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر دی گئی کہ قتال کا سلسلہ جاری رہے گا تاآنکہ فتنہ و فساد بالکل فرو ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو جائے: وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ (آیت ۱۹۳گویا قتال فی سبیل اللہ کا آخری ہدف غلبۂ دین حق ہے.

پھر آیت ۲۱۴ میں قتال سے جی چرانے والوں کو تنبیہہ کی گئی کہ کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ جنت میں داخلہ مل جائے گا‘بغیر اللہ کی راہ میں مصائب جھیلے اور تکالیف برداشت کیے؟ حالانکہ تم سے پہلے اہل ایمان کا ہم خوب ٹھوک بجا کر امتحان لیتے رہے ہیں! 

پھر آیات ۲۱۶ تا ۲۱۸ میں قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت و مشروعیت کی تصریح کی گئی اور تھوڑی دور آگے چل کر آیت ۲۴۴ میں نہ صرف یہ کہ اس کا پر زور اِعادہ کیا گیا بلکہ آیات ۲۴۶ تا ۲۵۲ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے اُن واقعات کا ذکر ہوا جن میں مشرکین اور کفار سے قتال کے نتیجے میں تاریخی اعتبار سے یہود کی عظمت و سطوت کے دَور کا آغاز ہوا‘ یعنی وہ جنگ جو طالوت اور جالوت کے مابین ہوئی اور جس کے بعد حضرت داؤ د و سلیمان علیہما السلام کی پُرشکوہ بادشاہت شروع ہوئی. یہ تفصیلی بیان درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید تھا جس سے خود مسلمانوں کی سطوت و شوکت اور دین حق کے غلبے کے دَور کا آغاز ہوا‘جس کا نقطۂ عروج دورِ خلافت راشدہ ہے.

اور پھر اس سورۂ مبارکہ کا اِختتام ہوا اس عظیم دُعا پر جو شہادت علی الناس کی نازک ذمہ داری کی ادائیگی اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے کٹھن مراحل میں اہل ایمان کے لیے سرمایۂ اطمینان و سکون بنتی ہے ‘اور جس کا خاتمہ ہوتا ہے کفار کے بالمقابل اللہ سے امداد و نصرت کی اِستدعا پر‘اور جو آنحضور کو عطا فرمائی گئی تھی شب معراج میں اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے لیے ہدیۂ ربانی کے طورپر. ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾٪
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا. اے ہمارے پروردگار! ہمارے اُوپر اس طرح کا کوئی بار نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے گزرے‘اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ لاد جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو ‘اور ہمیں معاف کر‘ہمیں بخش دے‘ اور ہم پر رحم فرما‘تو ہمارا مولا ہے‘پس کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر.‘‘ 

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo