ترتیب نزولی کے اعتبار سے سورۃ البقرۃ کے بعد سورۃ الانفال کا نمبر ہے ‘اس لیے کہ وہ کل کی کل غزوۂ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی. لیکن ترتیب ِمصحف میں سورۃ الانفال کو سورۃ الانعام اور سورۃا لاعراف کے بعد اور سورۃ التوبۃ سے قبل رکھا گیا ہے‘جس کی حکمت پر گفتگو اِن شاء اللہ سورۃ الانفال ہی کے ضمن میں ہو گی.بہرحال مصحف میں سورۃ البقرۃ کے بعد سورۂ آلِ عمران ہے ‘جس کے بارے میں پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ہر اعتبار سے سورۃ البقرۃ کا جوڑا معلوم ہوتی ہے.

چنانچہ یہ بھی مضامین کے اعتبار سے سورۃ البقرۃ کی طرح دو بالکل مساوی حصوں پر منقسم ہے. پہلے حصے میں روئے سخن اہل کتاب اور ان میں سے بھی بالخصوص نصاریٰ کی جانب ہے ‘اور دوسرے میں خطاب کا رُخ براہِ راست اُمت ِمسلمہ کی طرف ہے. 

پھر اس کا نصف اوّل بھی ٹھیک سورۃ البقرۃ کے مانند تین اجزاء ہی پر مشتمل ہے‘ یعنی جزو اوّل جو آیات ۱ تا ۳۲ پر مشتمل ہے ‘جو غزوۂ بدر کے فوراً بعد نازل ہوا اور جسے اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ سے خطاب کی تمہید قرار دیا جا سکتا ہے‘جزوِ ثانی جو آیات ۳۳ تا ۶۳ پر مشتمل ہے اور صحیح روایات کے مطابق ۹ھ میں وفد ِنجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوا‘ جس میں نصاریٰ سے براہ ِ راست خطاب فرمایا گیا اور اُن کے عقیدۂ اُلوہیتِ مسیح کی بھرپور تردید کی گئی‘ اور جزوِ ثالث جو آیات ۶۴ تا ۹۹ پر مشتمل ہے ‘جس کا زمانہ ٔ‘ نزول غزوۂ اُحد سے متصلاً قبل معلوم ہوتا ہے اور جس میں خطاب کا رُخ اہل کتاب کے دونوں گروہوں کی جانب ہے‘یعنی یہود کی جانب بھی اور نصاریٰ کی جانب بھی ‘اور دونوں ہی کو بالکل سورۃ البقرۃکے انداز میں دعوت بھی دی گئی ہے اور ملامت بھی کی گئی ہے.

اسی طرح اس سورۂ مبارکہ کا نصف ثانی بھی تین اجزاء پر منقسم ہے. جزوِ اوّل جو آیات ۱۰۰ تا ۱۲۰ پر مشتمل ہے ‘جس کا زمانہ ٔ ‘ نزول نصف ِاوّل کے جزوِ ثالث کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے اور جس میں اُمت مسلمہ سے عمومی خطاب فرمایا گیا ہے اور انہیں ان کے مقام و مرتبہ سے آگاہی بخشنے کے ساتھ ساتھ اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور بالخصوص اہل کتاب کے ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی گئی ہے.جزوِ ثانی جو آیات ۱۲۱ تا ۱۸۰ پر مشتمل ہے اور صحیح روایات کے مطابق غزوۂ اُحد کے فوراً بعد نازل ہوا‘جس میں غزوۂ اُحد کے حالات و واقعات اور اُس کے فوراً بعد پیدا ہونے والی سنگین صورتِ حال پر بھرپور تبصرہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے سلسلے میں اہل ایمان کو خصوصی ہدایات بھی دی گئی ہیں‘ اور جزوِ ثالث جو آیات ۱۸۱ تا ۲۰۰ پر مشتمل ہے اور خاتمۂ کلام کی حیثیت رکھتا ہے اور غالباً غزوۂ اُحد سے قبل نازل ہوا. واللہ اعلم! 

اس تجزیے کے بعد آیئے کہ ہر حصے کے اہم مضامین کا جائزہ لے لیں!

(۱) سورۃ البقرۃ کی طرح سورۂ آلِ عمران کا آغاز بھی حروفِ مقطعات الٓ مٓ سے ہوتا ہے اور اس کے پہلے رکوع میں اوّلاً قرآن مجید کی عظمت و جلالت ِ شان کا بیان ہے‘ اس مزید وضاحت کے ساتھ کہ یہ کوئی نئی یا انوکھی کتاب نہیں‘ بلکہ کتب سماویہ کے اُس عظیم سلسلے کی آخری و جامع اور مکمل و محفوظ کڑی ہے جس میں تورات اور انجیل بھی شامل ہیں. پھر سورۃ البقرۃ کے پہلے رکوع ہی کے مانند یہاں بھی دو گروہوں کا ذکر ہوا. ایک وہ طالبانِ ہدایت جو اس کتابِ الٰہی سے صحیح اِستفادہ کرنے والے ہیں اور دوسرے وہ جن کے قلوب میں کجی ہوتی ہے اور جو فتنے کے متلاشی ہوتے ہیں. نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.اس ضمن میں اس اہم حقیقت کی جانب رہنمائی عطا فرمائی گئی کہ کتابِ الٰہی دو قسم کی آیات پر مشتمل ہے. ایک آیاتِ محکمات جن کا مفہوم و مدلول بالکل واضح اور ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے اور دوسری آیاتِ متشابہات‘ جن کے اصل مراد و معنی کی تعیین میں اِشتباہ پیش آ سکتا ہے. جن لوگوں کے دلوں میں کجی اور نیت میں خلل ہوتا ہے اور جو بجائے ہدایت کے فتنے کے طالب ہوتے ہیں وہ آیاتِ‘متشابہات کی کھود کرید میں مصروف رہتے ہیں‘ اور جن طالبانِ ہدایت کو اللہ تعالیٰ رسوخ فی العلم عطا فرما دیتا ہے اُن کی اصل دلچسپی آیاتِ محکمات سے ہوتی ہے‘اور وہ آیاتِ متشابہات کے ضمن میں اِجمالی ایمان پر اکتفا کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ:

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۸

’’اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو کجی میں نہ مبتلا کر دیجیو اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا‘ اور ہمیں عطا فرما اپنے خزانۂ فضل سے رحمت ِ خصوصی‘یقینا تو ہی عطا فرمانے والا ہے !‘‘
اس میں ایک لطیف اشارہ ہو گیا نصاریٰ کی گمراہی کی طرف جنہوں نے 
’’ رُوح اللہ‘‘ اور ’’کَلِمَۃٌ مِّنْہُ‘‘ کے متشابہ الفاظ سے رائی کا پہاڑ بنا ڈالا اور اُلوہیت ِمسیح کا عقیدہ گھڑ لیاـ.

جزوِ اوّل کی بقیہ آیات یعنی از ۱۰ تا ۳۲ کے بارے میں قابل اعتماد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پس منظر میں ایک خاص واقعہ ہے ‘اور وہ یہ ہے کہ غزوۂ بدر سے واپسی پر آنحضور اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کا گزر بنی قینقاع کے بازار سے ہوا اور وہاں آپ نے یہود کو دعوتی خطبہ ارشاد فرمایا. جواب میں یہودِ بنی قینقاع نے انتہائی گستاخانہ انداز میں کہا کہ: ’’بدر کی فتح سے دھوکا نہ کھانا! جب ہم سے مقابلے کی نوبت آئی تو چھٹی کا دودھ یادآ جائے گا‘‘. اس پر یہ آیات نازل ہوئیں. چنانچہ ان میں اہل کتاب پر سخت تنقید بھی ہے اور انہیں شدید تہدید و وعید بھی. اور ساتھ ہی اہل ایمان کو متنبہ کر دیا گیا ہے کہ ان سے میل جول اور قریبی تعلقات اور دلی دوستی رکھنے سے پرہیز کریں.

(۲) نصف ِاوّل کے جزوِ ثانی کا آغاز انبیاء و رُسل علیہم السلام کے عظیم سلسلے کے حوالے سے ہوتا ہے جس میں آدم و نوح اور آل ابراہیم و آلِ عمران کے نام خصوصیت کے ساتھ لیے گئے. اس کے فوراً بعد حضرت مریم سلامٌ علیہاکی والدہ ماجدہ کا ذکر ہوا اور پھر خود حضرت مریم ؑ اور اُن کی نیکی و عبادت گزاری اور طہارت و پاک دامنی کی تفصیلات بیان ہوئیں اور پھر اُسی کے حوالے سے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا اور اس کی اجابت و قبولیت اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہوا جو بجائے خود ایک خرقِ عادت بات تھی‘ اس لیے کہ حضرت زکریاؑ بھی اُس وقت بہت ضعیف ہو چکے تھے اور اُن کی اہلیہ یعنی حضرت یحییٰ ؑ کی والدہ بھی نہایت بوڑھی تھیں اور تمام عمر بانجھ رہی تھیں. یہ گویا تمہید ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی خرقِ عادت ولادت کے ذکر کی. چنانچہ پھر بیان کا رُخ حضرت مریم اور حضرت مسیح علیہما السلام کی جانب مڑ گیا اور اُن کے معجزات اور حالات و واقعات کے ذکر کے بعد اصل حقیقت کو بے نقاب کر دیا گیا کہ حضرت مسیح ؑ نہ خود خدا تھے نہ خدا کے بیٹے ‘بلکہ اللہ کے رسول اور اس کے بندے اور مخلوق تھے. اُن کی ولادت ضرور بغیر باپ کے ہوئی اور انہیں معجزات بھی نہایت عظیم عطا کیے گئے‘ لیکن یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے ہے نہ کہ کسی اور کے ارادہ و اختیار سے. اگر حضرت یحیی ؑ کی خلافِ عادت ولادت ان کی اُلوہیت کی دلیل نہیں تو حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت میں طبعی قانون اگر تھوڑا سا مزید ٹوٹتا نظر آتا ہے تو آخر اس سے ان کا خدا یا خدائی میں شریک ہونا کیسے لازم آ گیا؟ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘یہ عظیم خطبہ آنحضور پر ۹ھ میں نجران کے عیسائیوں کے وفد کی آمد کے موقع پر نازل ہوا تھا. چنانچہ اس کے آخر میں انہیں مباہلے کا چیلنج بھی دے دیا گیا ہے‘ اور روایات ِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ ایمان سے تو محروم ہی لوٹ گئے لیکن مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کی جرأت نہ کر سکے!

(۳) نصف ِاوّل کے جزوِ ثالث میں ‘جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا تھا ‘اہل کتاب کو دعوت بھی ہے اور ملامت بھی. چنانچہ اس کا آغاز اِس عظیم آیت سے ہوتا ہے:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۶۴’’(اے نبی!) کہہ دو:اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے مابین مشترک ہے‘(یعنی) یہ کہ ہم بندگی نہ کریں اللہ کے سوا کسی کی‘اور شریک نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو اور ہم میں سے کوئی نہ بنا لے اللہ کے سوا دوسروں کو ربّ …‘‘

اس اُصولی اِشتراک کے بعد دعوت کے ضمن میں بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل دونوں کے مشترک جدّ امجد کا ذکر کیا گیا اور اُن کے بارے میں فرمایا گیا کہ نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی ‘بلکہ اُن کا دین بھی وہی اسلام تھا جس کی دعوت نبی اُمی  دے رہے ہیں. اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کے مانند یہاں بھی خانۂ کعبہ کا ذکر بھی کیا گیا کہ خدائے واحد کی پرستش کے لیے روئے ارضی پر تعمیر کیا جانے والا پہلا گھر وہی ہے جس کی تولیت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور بنی اسمٰعیل کو عطا کی گئی.

اس دعوت کے ساتھ ساتھ اُن کی اخلاقی و عملی اور فکری و اعتقادی گمراہیوں پر تنقید بھی کی گئی‘ اور گویا سورۃ البقرۃ میں جو فردِ قرار دادِ جرم تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی تھی اُس کا خلاصہ دوبارہ سامنے رکھ دیا گیا.

(۴) نصف ثانی کے جزو ِاوّل میں سب سے پہلے مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ اپنی سادہ لوحی کے باعث اہل کتاب کے پروپیگنڈے سے متأثر ہو گئے تو وہ انہیں اسلام سے واپس کفر کی جانب پھیر لے جائیں گے.

پھر تین بنیادی ہدایتیں دی گئیں. ایک یہ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس سے تقویٰ کا حق ہے. دوسرے یہ کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو. صحیح روایات کی رُو سے اس کی وضاحت آنحضور نے فرما دی کہ اللہ کی رسّی سے مراد اللہ کی کتاب ہے ‘اور تیسرے یہ کہ تفرقہ و اختلاف کو راہ نہ دو اور متحد و متفق رہو.

پھر مسلمانوں کو اُن کے فرضِ منصبی سے آگاہ کیا گیا کہ: ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے دنیا والوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ (تمہارا کام یہ ہے کہ) تم نیکی کا حکم دو‘ بدی سے روکواور اللہ پر ایمان (اوربھروسہ) رکھو!‘‘ (آیت ۱۱۰)

یہ گویا وہی مضمون ہے جو سورۃ البقرۃ میں اُمت ِمسلمہ کی غرضِ تأسیس کی بحث کے ضمن میں ’’شہادت علی الناس‘‘ کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا گیا تھا. اس سلسلے میں یہ عملی ہدایت بھی دے دی گئی کہ اگر خدانخواستہ کبھی اُمت بحیثیت مجموعی اس فریضے سے غفلت برتنے لگے تب بھی اُمت ِمسلمہ میں کم از کم ایک جماعت تو ضرور ایسی رہنی چاہیے جو اسے اپنا مقصد ِزندگی اور فریضہ ٔحیات بنا لے.

(۵) نصف ِ ثانی کے دوسرے جزو میں غزوۂ اُحد کے حالات و واقعات پر تفصیلی تبصرہ ہے اور بالخصوص ان کمزوریوں کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے جو دعوت ِ اسلامی کے اس اہم اور نازک مرحلے پر مسلمانوں کی بعض جماعتوں کی جانب سے ظاہر ہوئیں‘ اور جن کے نتیجے میں فتح عارضی طور پر شکست میں تبدیل ہو گئی اور نبی اکرم بھی زخمی ہوئے اور ستر مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا. اس سلسلہ کی اہم ترین آیت ۱۵۲ ہے ‘جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اور اللہ نے تو تم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا جب تم انہیں اُس کی تائید و نصرت کے طفیل تہ تیغ کر رہے تھے. یہاں تک کہ تم نے (خود ہی) ڈھیلے پن کا مظاہرہ کیا اور حکم کے بارے میں جھگڑا کیا اور نافرمانی کا ارتکاب کیا اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز (یعنی فتح یا مالِ غنیمت) دکھا دی جو تمہیں محبوب ہے.تم میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اصلاً دنیا کے طالب ہیں اور وہ بھی ہیں جو آخرت کے طلب گار ہیں. پھراللہ نے تمہارا رُخ اُن کی جانب سے موڑ دیا تاکہ تمہیں آزمائش کی بھٹی میں تپائے ‘اور (بالآخر) تمہیں معاف بھی کر دیا.واقعہ یہ ہے کہ اللہ مؤمنین کے حق میں بڑا بخشندہ و مہربان ہے.‘‘
ُ قرآن مجید میں یہ مقام‘اہل ایمان کو جو آزمائشیں اللہ کی جانب سے پیش آتی ہیں اُن کے ضمن میں حد درجہ جامع اور اہم ہے. چنانچہ ایک طرف تو یہ واضح کیا گیا کہ اہل ایمان کے لیے ا ِبتلاء و آزمائش اللہ کی سنت ِثابتہ ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں. دوسری طرف اِس ابتلاء و آزمائش کی حکمت بھی بیان کر دی کہ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور پانی کہاں کہاں مرتا ہے ‘تاکہ جماعت اپنی تطہیر اور تمحیص کر لے اور آئندہ کے مراحل کے لیے مزید چا ق و چوبند ہو جائے. تیسری طرف اس ضمن میں منافقین کا کردار بھی واضح کر دیا گیا تاکہ مسلمان اپنی جماعت کے اس ففتھ کالمسٹ عنصر 
سے خبردار ہو جائیں. 

یہ مضامین اس سورۂ مبارکہ میں بہ اِعادہ و تکرار آیات ۱۴۰ تا ۱۴۲‘پھر آیات ۱۵۲۱۵۴‘پھر آیات ۱۶۵ تا ۱۶۸‘اور بالآخر نہایت جامع انداز میں آیت ۱۷۹ میں بیان ہوئے ہیں. آیت ۱۷۹ کے الفاظ ہیں: 

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ 
’’اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ تمہیں چھوڑ دے اس حال میں جس میں تم ہو (وہ توجانچ پرکھ جاری رکھے گا) یہاں تک کہ پاک سے ناپاک کو بالکل جدا کر دے !‘‘

اور اس سلسلے میں اِس سورت میں بھی وہ مضمون دوبارہ بیان کر دیاگیا جو اِس سے قبل سورۃ البقرۃ کے رکوع ۱۹ میں بیان کیا گیا تھا کہ:

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو‘وہ زندہ ہیں اور اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں . خود بھی اللہ کی داد و دہش سے فرحاں و شاداں ہیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والے صاحب ِ ایمان ساتھیوں کے بارے میں بھی خوشیاں منا رہے ہیں کہ اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ غم!‘‘ (آیات ۱۶۹۱۷۰)

(۶) آخری حصہ جو خاتمۂ کلام کی حیثیت رکھتا ہے‘دو رُکوعوں پر مشتمل ہے.

پہلے یعنی سورۃ کے انیسویں رکوع میں ایک بار پھر اس کش مکش کی جانب اشارہ کر دیا گیا جو اہل ایمان اور اہل کتاب کے مابین خصوصاً غزوۂ اُحد کے بعد شدت اختیار کر گئی تھی. اس میں اہل کتاب کو اسی تہدید و تنبیہہ اور اہل ایمان کو اُن ہی ہدایات کا اِعادہ کیا گیا جو اِس سے قبل تفصیل سے آ چکی ہیں.

اور آخری رکوع کی دس آیات وہ ہیں جن کی صحیح احادیث میں حد درجہ فضیلت وارد ہوئی ہے اور جن سے خصوصی شغف تھا آنحضور کو. ان میں خلاصہ آ گیا اس اِستدلال کا جو توحید‘معاد اور رسالت کے ضمن میں قرآن حکیم کی مکی سورتوں میں تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے ‘اور ان میں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اہل ایمان کی جان نثاری‘ سرفروشی‘ اور غلبۂ دین حق کے لیے گھر بار چھوڑنے‘اعزہ و اقرباء سے قطع تعلق کرنے اور جہاد و قتال کے معرکے سر کرنے اور جان کی بازی لگا دینے کا. اس رکوع میں سورۃ البقرۃ ہی کے مانند ایک عظیم دُعا بھی آ گئی ہے ‘یعنی:

’’اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ (کار خانہ) بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے. تو (اس بات سے) پاک ہے (کہ کوئی عبث کام کرے)‘ سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا! اے ہمارے ربّ! جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا بے شک اس کو تونے رسوا کر دیا ‘اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہو گا. اے ہمارے ربّ! یقینا ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا ایمان کی دعوت دیتے ہوئے کہ (لوگو!) اپنے ربّ پر ایمان لاؤ ‘تو ہم ایمان لائے.اے ہمارے ربّ! ہمارے گناہوں کو بخش دے‘ہماری برائیوں کو ہم سے دُور کر دے اور ہمیں موت اپنے وفادار بندوں کے ساتھ دے. اے ہمارے ربّ! اور ہمیں بخش وہ کچھ جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کیجیو. بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا.‘‘ (آیات ۱۹۱.۱۹۴

اور اس کا اِختتام ہوا اس حد درجہ جامع آیت پرکہ:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۰۰﴾٪
’’اے اہل ایمان! صبر سے کام لو‘ مقابلے میں پامردی کا ثبوت دو اور (حفاظت و مدافعت میں) چوکس رہو.او راللہ سے ڈرتے رہو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ .‘‘

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo