احکامِ شرعی کے ذیل میں اس سورۂ مبارکہ میں سب سے زیادہ تفاصیل عائلی و خاندانی زندگی سے متعلق آئی ہیں. اور چونکہ خاندانی اور سماجی زندگی کا نقطہ ٔ‘ آغاز ایک گھر کی آبادی اور ایک مرد اور ایک عورت کا ازدواجی رشتے میں منسلک ہونا ہے لہذا سب سے زیادہ تفصیلی احکام اسی کے ضمن میں دیے گئے ہیں. چنانچہ اس کا آغاز ہی اُس آیت سے ہوا ہے جسے گویا اس موضوع کے لیے جامع ترین عنوان کی حیثیت حاصل ہے. چنانچہ آنحضور نے بالکل بجا طور پر اسے خطبۂ نکاح کا جزوِ لاینفک بنا لیا. ارشاد ہوتا ہے:

’’اے لوگو! تقویٰ اختیار کرو اپنے اُس ربّ کا جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی سے بنایا اُس کا جوڑا بھی‘او رپھر اُن دونوں سے پھیلا دیا کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو. اور بچتے رہو اُس اللہ (کی نافرمانی) سے بھی جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیا کرتے ہو اور قطعِ رحمی سے بھی. اور آگاہ رہو کہ اللہ تمہاری نگرانی فرما رہا ہے!‘‘

اس جامع ہدایت کے بعد سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤ ں سے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئی ہیں:

۱) آیات ۲ تا ۶: یتیموں کے حقوق کی نگہداشت اور اُن سے حسنِ سلوک کی تاکید.

۲) آیات ۷ تا ۱۴:تقسیم وراثت کے ضمن میں اخلاقی تعلیم بھی اور قانونی ضابطہ بھی‘ جس کا تکملہ و تتمہ آیت ۱۷۶ میں وارد ہوا.

۳) آیات ۱۵ تا ۱۶ : جنسی بے راہروی کی روک تھام کے لیے تعزیرات کا بیان.

۴) آیات ۱۹ تا ۲۵:عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کی تاکید اور اس ضمن میں حسب ذیل اہم امور کی وضاحت کہ: 
(ا) عورت آزاد شخصیت کی حامل اور قانونی تشخص کی حق دار ہے‘نہ کہ مردوں کی ملکیت یا مالِ وراثت.
(ب) عورتوں کو دیاہوا مہر یا دوسرا مال واپس لینے کے لیے ان کو بے جا تنگ کرنا اور اُن پر تہمت لگانا انتہائی دناء َت اور کمینہ پن ہے.
(ج) باپ کی منکوحہ بیٹے پر حرام ہے.
(د) اُن عورتوں کی تفصیل جن سے نکاح جائز نہیں.
(ھ) نکاح کے اصل مقاصد گھر کی آبادی اور عصمت و عفت کی حفاظت ہیں نہ کہ صرف شہوت رانی یا مستی نکالناچنانچہ اس کی کچھ شرائط ہیں جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے.
(و) جو لوگ آزاد اور خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتے ہوں انہیں بدرجۂ مجبوری لونڈیوں سے نکاح کی اجازت.
(ز) تعدّدِ ازدواج کی صورت میں عدل کی شرط. 
(۱

(ح) اور پھر آیات ۱۲۷ تا ۱۳۴ میں مزید وضاحت کہ عدل میں صرف ان چیزوں کا لحاظ ہو گا جن میں ناپ تو ل ممکن ہو. دلی میلان و رغبت انسان کے اختیار سے باہر ہے‘ لہذا اس پر مؤاخذہ نہ ہوگا. البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک بیوی کی طرف اس طرح جھک جایا جائے کہ دوسری بے چاری نہ خاوند والی شمار ہو نہ بے خاوند!
(ط) یہ کہ اگر میاں بیوی میں کسی طرح بھی موافقت پیدا نہ ہو سکے تو بدرجہ ٔ مجبوری طلاق کا راستہ اختیار کر لینے میں کوئی قباحت نہیں. طلاق اللہ کو ناپسند تو ہے 
(۱) یہ مضمون سورۃ کے بالکل آغاز میں آیت ۳ میں وارد ہوا ہے. لیکن حرام نہیں! ہو سکتا ہے کہ اللہ دونوں کے لیے بہتر صورت پیدا فرمادے.

(ی) گھریلو زندگی اور خاندانی نظام کے بارے میں ان تفصیلی احکام کے ساتھ اس سورۂ مبارکہ میں عائلی نظام کے ضمن میں اہم اصولی مباحث بھی وارد ہوئے. چنانچہ آیات ۳۲ تا ۳۵ میں تین اہم حقائق بیان ہوئے.ایک یہ کہ اللہ کی تخلیق میں بعض کو بعض پر مختلف پہلوؤ ں سے فضیلت عطا ہوئی ہے. بندوں کا کام یہ ہے کہ اسے خوش دلی سے قبول کریں. دوسرے یہ کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو بعض اعتبارات سے فضیلت حاصل ہے اور خاندانی نظام کی صحت و درستی مرد کی قوامیت ہی کے اصول پر استوار ہوسکتی ہے. تیسرے یہ کہ نکاح کا بندھن اتنا معمولی نہیں ہے کہ ذرا سی بات پر توڑ دیا جائے‘عدم موافقت اور باہمی نزاع و اختلاف کی صورت میں جانبین کے اعزہ و اقرباء کو اصلاحِ حال کی سر توڑ کوشش کرنی چاہیے.