نظامِ عائلی کے بارے میں ان حکیمانہ مباحث کے علاوہ سورۃ البقرۃ کی طرح اس سورۂ مبارکہ میں دین کے بنیادی فلسفے اور حکمت کے بعض گراں قدر موتی بھی جابجا جڑ دیے گئے ہیں‘چنانچہ:

(۱) آیات ۲۶ تا ۲۸ میں نفسِ شریعت کے بارے میں اِفراط و تفریط کی نشان دہی کی گئی‘ یعنی یہ کہ بعض لوگوں کو تو شریعت فی نفسہٖ ایک ناگوار بوجھ نظر آتی ہے‘ حالانکہ وہ انسان کو فوز و فلاح سے ہمکنار کرنے اور اس کی زندگی کے گونا گوں مسائل و معاملات کو ایک حد درجہ حسین اِعتدال و توازن کے ساتھ منضبط کرنے کا ذریعہ ہے. اور دوسری طرف بعض لوگ شریعت میں اپنی مشکل پسند طبیعت کے باعث سختی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں‘ جس سے لوگوں کی گردنوں پر واقعتہً بہت بھاری بوجھ آ جاتا ہے. اِن دونوں رجحانات سے بچنے کی شدید ضرورت ہے. 

(۲) آیات ۲۹ تا ۳۱ میں واضح کیا گیا کہ نظامِ شریعت میں احترامِ جان و مال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اور معاصی کے ذیل میں واضح کیا گیا کہ اگر انسان اپنے آپ کو کبیرہ گناہوں سے بچا لے تو اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو بخش دے گا.

(۳)آیات ۱۷۱۸ میں توبہ کے بارے میں واضح کیاگیا کہ ایک توبہ تو وہ ہے جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے‘ یعنی اُس شخص کی توبہ جس سے گناہ جذبات کی رو میں سرزد ہو گیا ہو اور وہ فورا ً ہی رجوع کر لے اور دوسری توبہ وہ ہے جس کی قبولیت کا کوئی امکان نہیں. یہ ان لوگوں کی توبہ ہے جو جان بوجھ کر معصیت میں زندگی بسر کر دیتے ہیں اور جب موت سرہانے آ کھڑی ہوتی ہے تب توبہ کرتے ہیں. ان دو اِنتہاؤں کے مابین معاملے کا ذکر حذف کر دیا گیا تاکہ انسان خوف اور رجاء کے بین بین رہے.

(۴) آیات ۳۶ تا ۴۰ میں نہایت جامعیت کے ساتھ دین کے اساسی احکام کا خلاصہ پیش فرما دیا گیا ‘کہ دین کا اصل الاصول تو ہے توحید. چنانچہ وہ سب سے بڑا گناہ جس کی بخشش نہیں ہوگی‘شرک ہے. اس کے بعد معاملہ ہے ادائے حقوق اور حسن سلوک کا‘جس میں سرفہرست ہیں والدین‘پھر رشتہ دار‘پھر یتامی و مساکین‘پھر پڑوسی خواہ وہ رشتہ دار ہو خواہ اجنبی اور خواہ اُس کے ساتھ نہایت مختصر عرصے کے لیے عارضی ساتھ ہو گیا ہو‘اور پھر ہیں مسافر! اور پھر ادائے حقوق سے گفتگو کا رُخ مڑ گیا انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید اور بخل کی مذمت کی طرف.

(۵)آیات ۴۱۴۲ میں نقشہ کھینچ دیا گیا عدالت اُخروی کا ‘جس میں قوموں اور اُمتوں کے محاسبے کے وقت سرکاری گواہوں کی حیثیت سے پیش ہوں گے اُن کے انبیاء و رُسل. ان آیات کی قراء ت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سن کر آنحضور کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے.ان کا ترجمہ یہ ہے:

’’تو کیا ہوگا اُس دن جب کہ ہم ہر اُمت میں سے (اُس کے خلاف) ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ کو کھڑا کریں گے (اے نبی!) ان لوگوں کے خلاف گواہ کی حیثیت سے.اس ر وز وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور رسول کی نافرمانی کی ہو گی‘خواہش کریں گے کہ کاش (وہ زمین میں دھنس جائیں اور )زمین ان پر برابر کر دی جائے. اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے!‘‘

یہ گویا اسی ’’شہادت علی الناس ‘‘ کا اُخروی پہلو ہے جس کا ذکر سورۃ البقرۃ میں آیا. اور جس طرح سورۃ البقرۃ میں اس کے معاً بعدمسلمانوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس عظیم منصب کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ضمن میں مدد حاصل کرو صبر اور صلوٰۃ سے‘ اسی طرح یہاں بھی اس کے فوراً بعد آیت ۴۳ میں ذکر آیا نماز کا‘ اور نماز کے ظاہری و معنوی موانع اور اُن سے نجات حاصل کرنے کے ذرائع کا.