عائلی اور گھریلو زندگی سے بلند تر سطح پر ایک صالح اور صحت مند معاشرے کی تعمیر کے ضمن میں سورۃ النساء میں بعض نہایت اہم اور اصولی ہدایات بھی دی گئی ہیں. چنانچہ 

(۱) آیت ۵۸ میں فرمایا گیا:
’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کے سپرد کرو اور جب تم لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو. یقینایہ بہت ہی اعلیٰ (اور عمدہ) نصیحت ہے جو اللہ تمہیں کر رہا ہے . اللہ تو ہے ہی سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا.‘‘

اور ظاہر ہے کہ ادائے امانت اور قیامِ عدل و انصاف کے بغیر کسی بھی صحت مند اِجتماعی نظام کی تعمیر کی توقع نہیں کی جا سکتی!

(۲) پھر آیت ۸۵ میں فرمایا: 
’’جو کوئی سفارش (یا تائید) کرے گا بھلائی کی تو اس (کے اجر) میں سے اسے بھی حصہ ملے گا ‘اور جو کوئی سفارش (یا تائید) کرے گا برائی کی تو خود بھی اس کے وبال میں شریک ہو کر رہے گا‘ اور اللہ ہر ہر چیز کا پورا پورا حساب رکھنے والا ہے!‘‘ 
ظاہر ہے کہ یہ بھی حیاتِ اجتماعی کا زرّین اصول ہے اور یہ وہی بات ہے جو اگلی سورت یعنی سورۃ المائدۃ کی آیت ۲ میں اِن الفاظ میں آئے گی: 
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ 

’’اور تعاون کرو بر و تقویٰ کے ہر کام میں ‘اور ہرگز تعاون نہ کرو کسی بھی گناہ یا ظلم کے کام میں!‘‘

(۳) پھر آیت ۸۶ میں ارشاد فرمایا:
’’اورجب تمہیں سلام کیا جائے (یا دُعا دی جائے) تو تم بھی (جواباً)ا س سے بہتر طور پر سلام کرو(یا دعا دو) ورنہ (کم از کم) اسی انداز میں لوٹا دو. یقینااللہ ہر ہر چیز کا حساب لینے والا ہے!‘‘

یہ گویا آداب کی تعلیم ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں محبت و یگانگت کے اِحساسات پروان چڑھتے ہیں.
اس سلسلے کی اہم ترین کڑی آیت ۱۳۵ ہے جس میں فرمایا گیا: 

’’اے اہل ایمان! پوری قوت و استقامت کے ساتھ عدل و انصاف کے علمبردار (اور) اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘

یہی ہدایت الفاظ کی ترتیب کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ سورۃ المائدۃ کی آیت ۸ میں آئی ہے. اور یہ گویا اسی فرضِ منصبی کی ادائیگی کی تاکید ہے جس کے لیے اُمت مسلمہ برپا کی گئی ‘یعنی خلق پر خالقِ ارض و سماء کی جانب سے قولی و عملی شہادت اور اِتمامِ حجت! اور اس پر ختم ہوتا ہے اِس سورۂ مبارکہ کے ان حصص کے مضامین کا خلاصہ جن میں خطاب اُمت ِمسلمہ سے بحیثیت اُمت ِمسلمہ ہوا ہے.