اہل کتاب کے ساتھ سورۃ النساء میں خطاب بہت مختصر ہے ‘یعنی پہلے آیات ۴۴ تا ۵۷ میں اور پھر آیات ۱۵۳ تا ۱۵۷ میں‘او ران میں بھی جہاں تک یہود کا تعلق ہے ‘ایک تو انداز براہِ راست گفتگو کا نہیں ‘بلکہ برسبیل تذکرہ اور بالواسطہ خطاب کا ہے. اور دوسرے یہ کہ رنگ دعوت کا نہیں ‘بلکہ تمام تر ملامت اور زجر و توبیخ کا ہے. البتہ نصاریٰ کے ساتھ گفتگو براہِ راست بھی ہے اور اس میں تہدید و تنبیہہ کے ساتھ ساتھ دعوت اور افہام و تفہیم کا رنگ بھی موجود ہے.

چنانچہ اس سورت میں ایک بار پھر یہود کے اُن جرائم کی فہرست سامنے آتی ہے جن کی تفصیل سورۃ البقرۃ میں بیان ہو چکی ہے. جیسے اللہ کی کتابوں میں لفظی و معنوی تحریف‘ یا صرف زبان کو توڑ موڑ کر یا لہجے کی تبدیلی سے الفاظ کے معانی کا بدل دینا. حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کا یہ کہنا کہ ہم نہیں مانیں گے جب تک کہ خدا کو خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں. پھر نبی کی زندگی ہی میں بچھڑے کو معبود بنا لینا اور بدترین اور عریاں ترین شرک کا مرتکب ہو جانا‘حضرت مریم ؑ پر بہتان باندھنا ‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی امکانی حد تک تو سولی پر لٹکا کر ہی دم لینا‘یہ دوسری بات ہے کہ اللہ نے انہیں اس سے بچا لیا اور آسمان پر اٹھالیا. مزید برآں عملی واخلاقی گراوٹوں کے ذیل میں سحر اور اعمالِ سفلیہ سے دلچسپی رکھنا‘سود کھانا اور لوگوں کے مال حرام طریقوں سے ہڑپ کر جانا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سب کے باوصف صاحبِ دین و شریعت ہونے پر فخر کرنا اور تقویٰ اور پرہیزگاری کا ڈھونگ رچانا. 
وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِنَ السَّیِّئَاتِ!

اور ساتھ ہی نہایت زور دار الفاظ میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ ان کی چکنی چپڑی باتوں پر مت جاؤ . ان کے دلوں میں حسد کی آگ جل رہی ہے اور وہ تمہاری دشمنی میں بالکل اندھے ہو چکے ہیں اور تمہیں گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہے. ان کے لیے یہ چیز ناقابل برداشت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین و شریعت اور کتابِ الٰہی کے حامل ہونے کا مقام اور مرتبہ ان سے چھین کر تمہیں عطا کر دیا. چنانچہ اب وہ تمہیں ہر ممکن طریق سے گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں.

اس سورۂ مبارکہ میں یہ تنبیہات اس اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کا ایک بڑا حصہ ‘جو اِس کے نصف کے لگ بھگ ہے ‘نفاق اور منافقین سے بحث کرتا ہے‘ اور یہ مرض اصلاً یہود ہی کے چھوت سے مسلمانوں بالخصوص انصار کے دونوں قبیلوں یعنی اَوس اور خزرج کے ایسے لوگوں کو لگا جو یا توخود بھی ضعف ایمان کی کیفیت میں مبتلا تھے اور دین کے بھاری تقاضے یعنی انفاقِ مال اور جہاد و قتال ان پر شاق گزر رہے تھے‘ گویا نفاق کی 
فصل کے لیے ان کے دلوں کی زمین پہلے سے تیار تھی جس میں یہود نے نہایت ہوشیاری اور مکاری سے اِس مرض کے بیج بو دیے‘یا وہ بہت سادہ لوح تھے اور اپنی سادگی کے باعث یہود کی چکنی چپڑی اور بظاہر عالمانہ و فاضلانہ باتوں سے متأثر ہو جاتے تھے. الغرض انصار اور یہود کے دیرینہ روابط اور قدیم مراسم ہی وہ خطرہ اور اندیشہ کی جگہ بن گئے تھے جہاں سے نفاق کا مرض اُمت ِمسلمہ میں جڑ پکڑ رہا تھا.

یہود کی شرانگیزی کی ایک بہت نمایاں مثال جو اِس سورت میں بیان ہوئی‘ وہ یہ ہے کہ انہوں نے بظاہر نہایت معصومیت کے ساتھ آنحضور سے مطالبہ کیا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بصورتِ اَلواح لکھی ہوئی کتاب عطا کی گئی تھی‘ ہم آپ کی نبوت کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک آپ بھی ایسی ہی کتاب پیش نہ کریں‘جس پر آیت ۱۶۳ سے آیت ۱۶۶ تک نبوت و رسالت اور ارسالِ وحی و انزالِ کتب کے ضمن میں نہایت اہم حقائق بیان ہوئے. اور یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ وحی پہلے بھی کسی ایک ہی صورت میں نہیں آئی ‘بلکہ مختلف صورتوں میں آتی رہی ہے. اور یہ بھی واضح کر دیا گیاکہ بعثت ِ رُسل کی اصل غرض صرف انذار و تبشیر ہے ‘تاکہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت قائم ہو جائے اور اُن کے پاس خد اکے یہاں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے. چنانچہ ارشاد ہوا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ 

’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے‘ تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے. اور اللہ بہرحال زبردست (اور) حکیم و دانا ہے.‘‘

نصاریٰ کے ساتھ گفتگو کی تقریب اس سورۂ مبارکہ میں یہود کے حضرت مریم ؑ پر بہتان لگانے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں ان کے اس گمان سے پیدا ہوئی کہ‘ معاذ اللہ ‘ہم نے انہیں قتل کر دیا اور سولی پر چڑھوا دیا. چنانچہ ایک طرف تو یہود کے اِن غلط دعاوی کی تردید کی گئی اور اصل حقیقت پر سے پردہ اٹھا دیا گیا اور دوسری طرف خود 
نصاریٰ سے خطاب کر کے فرمایا گیا:

’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو. مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا ایک خاص کلمہ‘ جو اُس نے مریم کی جانب القاء کیا اور ایک رُوح اس کی جانب سے! پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور یہ نہ کہو کہ (خدا) تین ہیں (تثلیث کا دعویٰ نہ کرو). باز آ جاؤ ‘یہی تمہارے لیے بہتر ہے. اللہ تو بس اکیلا ہی معبود برحق ہے‘وہ پاک ہے اس سے کہ اُس کے اولاد ہو.

آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُسی کا ہے. اور اللہ کافی ہے بھروسے اور اعتماد کے لیے! نہ مسیح کو اللہ کی بندگی میں ہرگز کوئی عار ہے نہ ملائکہ ٔمقربین کو.اور جو کوئی اللہ کی بندگی میں عار محسوس کرے گا اور تکبر کرے گا تو وہ اُن سب کو اپنے پاس جمع کرے گا. پھر جو لوگ ایمان والے بھی ہوں گے اور انہوں نے نیک عمل بھی کیے ہوں گے تو ان کو تو وہ بھر پور بدلہ بھی دے گا اور مزید اپنے فضل سے بھی نوازے گا‘اور جنہوں نے عار و استکبار کی روش اختیار کی ہو گی تو انہیں وہ درد ناک عذاب دے گا اور وہ اللہ کے مقابلے میں اپنے نہ کوئی دوست پائیں گے نہ مددگار. اے لوگو! آچکی ہے تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے دلیل و برہان بھی اور نازل کر دی ہے ہم نے تمہاری طرف واضح روشنی بھی. تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کے دامن سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گے تو انہیں وہ داخل کرے گا اپنی رحمت اور فضل (کے سائے) میں اور رہنمائی فرمائے گا ان کی صراطِ مستقیم کی طرف (جو سیدھی اس تک پہنچانے والی ہے)‘‘. (آیات ۱۷۱ تا ۱۷۵)