سورۃ النساء کے وہ حصے جن میں روئے سخن منافقین کی جانب ہے ‘اس سورۂ مبارکہ کے لگ بھگ نصف پر مشتمل ہیں. ان کے بارے میں دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں. ایک یہ کہ چونکہ منافقین قانونی اعتبار سے اُمت مسلمہ ہی کا جزو تھے لہذا اُن سے خطاب یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ہی کے الفاظ سے ہوا ہے.لیکن خطاب کا مضمون اور اُس کا سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ یہاں روئے سخن مؤمنینِ صادقین کی جانب نہیں بلکہ منافقین کی طرف ہے. اگر یہ حقیقت ملحوظ نہ رہے تو بسا اوقات الفاظ کے عموم سے مغالطے کے باعث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوءِ ظن پیدا ہو سکتا ہے جو بڑی ہی قابل حذربات ہے. دوسرے یہ کہ منافقین کو زجر و توبیخ کے ضمن میں دین کے وہ تمام اُمور تفصیلاً زیر بحث آ گئے ہیں جو اُن پر گراں اور شاق گزرتے تھے اور اس طرح دین کے گراں اور ثقیل تقاضوں کے بیان کے ضمن میں سورۃ النساء کے اُن حصوں نے نہایت اہم اور جامع مقام کی حیثیت اختیار کر لی ہے.